کیا تاج محل کا وہی حشر ہوگا جو بابری مسجد کا ہوا!
شمس الاسلام Shamsul Islam Oct 20th 2017, 09.43 PM
Getty Images
دنیا کے عجائب میں سے ایک تاج محل اب ہندوتوا طاقتوں کے نشانے پر ہے۔ اس شاندار عمارت کو بنانے کا حکم مغل بادشاہ شہاب الدین محمد خرم جو شاہجہاں (1592-1668) کے نام سے مشہور ہوا، نے دیا تھا۔ اس کے بارے میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ایک مقبرہ تھا لیکن اس کو ایک محل اور وہ بھی تاج محل کا نام دیا گیا۔ اس مقبرہ کو تعمیر ہونے میں 20 برس لگے۔
سنگیت سوم نام کے ایک ہندوتوا سپاہی نے میرٹھ کے نزدیک ایک سیولی نام کے دیہات میں ہندو راجہ اننگ پال کی مورتی کا افتتاح کرتے ہوئے مسلمانوں اور اسلام پر کیچڑ اچھالی اور اس موقع پر تاج محل کو خاص طور سے اپنا نشانہ بنایا۔سوم نے اس موقع پر اعلان کیا کہ ’’بہت سارے افراد کو اس بات پر دکھ ہے کہ تاج محل کو ایک تاریخی عمارت کی لسٹ سے ہٹا دیا گیا ہے۔ آخر یہ کون سی تاریخ اور کہاں کی تاریخ کا ذکر ہے ہیں! جس شخص نے تاج محل بنوایا (شاہجہاں) اس نے اپنے باپ کو قید کیا، اس نے اتر پردیش اور ہندوستان کے ہندوؤں کو نشانہ بنایا۔ اگر ایسے لوگوں کو ابھی بھی تاریخ میں جگہ دی جا رہی ہے تو یہ افسوس کی بات ہے اور میں یقین دلاتا ہوں کہ تاریخ بدلی جائے گی... اور ہماری کتابوں میں جو ابھی تک باعث شرم نام ہیں وہ ہٹائے جائیں گے، خواہ وہ اکبر، اورنگ زیب یا بابر ہوں۔ حکومت وقت اس سلسلے میں کارگر ہے اور تاریخ بدلی جائے گی۔‘‘
آر ایس ایس کے چہیتے سوم ایک کٹر ہندووادی ہیں۔ سنہ 2013 کے مظفر نگر فساد کے ساتھ ان کا نام جڑا ہوا ہے۔ ان فسادات میں کم از کم 60 افراد مارے گئے اور 50 ہزار افراد بے گھر ہوئے۔ جسٹس وشنو سہائے کمیشن رپورٹ نے سوم کا نام ان افراد کی لسٹ میں رکھا ہے جنہوں نے مظفر نگر فسادات بھڑکائے تھے۔ اسی آر ایس ایس کے چہیتے کا نام دادری کے بساڑا گاؤں واقعہ سے بھی جڑا ہوا ہے جس میں محمد اخلاق نامی شخص کی موب لنچنگ کی گئی۔ آج وہی سوم ’ہندو ہردے سمراٹ‘ جیسے لقب سے نوازا جا رہا ہے۔
یہ سچ ہے کہ بی جے پی کے کچھ لیڈران نے بادل ناخواستہ سوم کے تاج محل والے بیان کی مذمت کی ہے لیکن انہوں نے بھی اس بات کا خیال رکھا ہے کہ ان کی مذمت سے نفرت کے اس پجاری (سوم) کی دل آزاری نہ ہو۔ مثلاً یو پی کی ٹورزم وزیر ریتا بہوگنا نے یہ واضح کیا کہ تاج ہماری وراثت کا حصہ ہے لیکن سوم کی مذمت کے بجائے انہوں نے کہا کہ ’’ ہر فرد اپنے اظہار خیال کے لیے آزاد ہے۔ لیکن جہاں تک یو پی حکومت کا سوال ہے تو تاج ہمارے لیے ایک اہم عمارت ہے۔‘‘
اس بات سے قطعاً انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ تاج کے سلسلے میں سوم کے جو خیالات ہیں وہ دراصل اس عمارت کے بارے میں آر ایس ایس کے نظریہ کی عکاسی کرتے ہیں۔ وہ اس مقبرے کے بارے میں بلاشبہ سنگھ کے خیالات کا اظہار کر رہا تھا۔ اور اس قسم کے خیالات اور بیانات اکثر دیے جاتے رہے ہیں۔ مثلاً ابھی حال ہی میں یوگی آدتیہ ناتھ نے خود اس بات کا اعلان کیا کہ ’’ ہندوستانی کلچر کی عکاسی رامائن اور گیتا کر تے ہیں نہ کہ تاج محل ۔‘‘ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہاتھی کے دانت کی طرح چمکتا مقبرہ ،ہندوستانی کلچر کا عکاس نہیں ہو سکتا ہے۔
دراصل تاج محل کو کیسے نفرت پھیلانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اس کا اندازہ بی جے پی راجیہ سبھا ایم پی ونے کٹیار کے اس بیان سے لگایا جا سکتا ہے جس میں انھوں نے کہا کہ ’’تاج محل مغل بادشاہ شاہجہاں نے تیجو محل نامی شیو مندر کو تڑوا کر بنوایا تھا۔‘‘
انہی خیالات کی تائید بی جے پی ترجمان جی وی ایل راؤ نے بھی اس طرح کی ’’بحیثیت ایک پارٹی کسی تاریخی عمارت کے بارے میں ہماری کوئی رائے نہیں ہے۔ لیکن اسلامک دور کے 800 برس وہ دور تھے جس میں دوسرے مذاہب کے خلاف جبر و استبداد کی انتہا ڈھا دی گئی تھی۔ اگر کوئی شخص ان حقائق سے منھ موڑے تو وہ تاریخ سے منھ موڑنے کے مترادف ہوگا۔ یہ بات دنیا بھر کے تاریخ داں مانتے ہیں کہ مسلم حملے اور مغل دور حکومت دنیا بھر میں ظلم اور زیادتیوں کا دور رہا ہے۔‘‘
کچھ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ تاج محل اور مسلم مظالم کی بات جان بوجھ کر گجرات چناؤ کے پس منظر میں اچھالی جا رہی ہے۔ یہ بھی خیال ہے کہ اس بار گجراتی ہندو بی جے پی سے ناراض ہیں۔ اس لیے تاج محل کا شوشہ چھوڑ کر ہندو ووٹ بینک بنایا جا رہا ہے۔ اس بات میں قدرے صداقت ہو سکتی ہے لیکن تاج محل کے تئیں ہندوتوا منافرت سے نہ تو انکار کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس خطرے کو ٹالا جا سکتا ہے۔
ایسا ہی کچھ ماحول بابری مسجد انہدام کے وقت سنہ 1990-92 کے دوران بنایا گیا تھا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس وقت مسلمانوں کو ’حرامزادے‘ اور ’بابر کی اولاد‘ قرار دے دیا گیا تھا۔ مسلمانوں کے خلاف دو برس تک نفرت اور تعصب کا ماحول جاری رہا جس کے نتیجے میں ہندوؤں میں مسلمانوں کے خلاف بدلے کا جذبہ پیدا ہو گیا اور اس کے نتیجے میں آر ایس ایس کے ذریعےاکٹھا کیے ہوئے مجمع نے 6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد ڈھا دی۔
اسی طرح اب تاج محل کے وجود کو ان طاقتوں سے خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ اس سلسلے میں حاکموں کی یقین دہانی پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ملک بابری مسجد کے معاملے میں سنگھ اور بی جے پی کے ایسے ہی تسلی بخش بیان کیسے بھول سکتا ہے۔ ان تمام بیانات کے باوجود بابری مسجد ڈھا دی گئی۔ اس لیے تاج کے وجود کو بھی خطرہ ہے اور یہ خطرہ تین طرح کا ہو سکتا ہے–
- جیسے 6 دسمبر 1992 کو ایک کثیر مجمع نے بابری مسجد گرائی، ویسے ہی نفرت انگیز ماحول کو پیدا کر تاج کو بھی تباہ و برباد کیا جا سکتا ہے ۔ اس سلسلے میں بہت سے ہندو تاریخ داں اور دانشوروں نے تاج محل کو بابری مسجد کی طرح مندر بتانا شروع کر دیا ہے ۔
- یہ بھی ممکن ہے کہ سنگھ کے لوگ نام نہاد اسلامک جہادی گروپ سے ہاتھ ملا کر، تاج محل کو اس بنیاد پر تباہ کرنے کی کوشش کریں کہ اسلام ایسے کسی مقبرے کی اجازت نہیں دیتا ۔ ہم کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ سنگھ اپنے مقصد کی حصولیابی کے لیے طرح طرح کی سازش رچنے میں یقین ہی نہیں مہارت بھی رکھتا ہے ۔
- تاج کو تیسرا خطرہ اس بات سے ہے کہ تاج کو صاف کرنے کے بہانے ایسے کیمیکل کا استعمال کیا جائے کہ اس سے اس کی خوبصورتی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تباہ ہو جائے۔
اس طرح کی کسی بھی سازش کو روکنے کے لیے سپریم کورٹ کو تاج محل جیسی ورلڈ ہیریٹج سائٹ کو اپنی نگرانی میں لے لینا چاہیے تاکہ اس کو سوم، جی ایل راؤ اور ونے کٹیار جیسوں کی سازشوں سے بچایا جا سکے اور اس سلسلے میں اقوام متحدہ کو بھی یونیسکو کے ذریعہ تاج محل کی نگرانی کرتے رہنا چاہیے۔
For some of S. Islam's writings in English, Hindi, Malayalam, Kannada, Bengali, Punjabi, Urdu & Gujarati see the following link:
Facebook: shams shamsul
Twitter: @shamsforjustice
Email: notoinjustice@gmail.com
No comments:
Post a Comment