Wednesday, June 26, 2019

گائے اور ہندُتو: جھوٹ اور سچ





 
'رام'، 'لو جہاد' اور 'گھر واپسی' (مسلمانوں و عیسائیوں کو جبریہ ہندو بنانا) جیسے معاملات کے بعد ہندُتووادی طاقتوں کے ہاتھ میں اب گئو رکشا کا ہتھیار ہے۔ مقدس گائے کو بچانے کے نام پر مسلمانوں اور دلتوں کو متشدد بھیڑ کے ذریعے گھیر کر مارپیٹ یہاں تک کہ قتل کر ڈالنے، ان کے اعضاء کاٹ پیٹ ڈالنے اور ان کے ساتھ لوٹ مار کرنے کے واقعات مسلسل ہو رہے ہیں۔ یاد رہے کہ ایسے کئی واقعات کا پتہ ہی نہیں چل پاتا ہے۔ ڈینگ ہانکنے یا اپنی بہادری دکھانے کے لئے ان متشدد عناصر کے ذریعے خود ہی سوشل میڈیا پر ڈالے گئے ویڈیوز اس مارپیٹ اور ظلم و زیادتی کی تصویر دکھاتے ہیں، جسے دیکھ سن کر تقسیم کے وقت کے ظالمانہ اور ہولناک واقعات یاد آ جاتے ہیں۔ انہیں دیکھ کے صاف لگتا ہے کہ ان متشدد اور بے لگام عناصر کو حکومت کی سرپرستی حاصل ہے اور انہیں قانون کا کوئی ڈر نہیں ہے۔ یہ شرمناک ویڈیوز ہمیں دکھا رہے ہیں کہ کس طرح یہ ہندووادی متشدد عناصر کسی کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالنے یا اسے ادھ مرا کر دینے پر خوشیاں مناتے، اس سے حظ اٹھاتے ہیں۔ گئو رکشا کا مذہبی فریضہ ادا کرنے والے یہ غیر سماجی عناصر صحیح معنوں میں قاتل ہونے کے ساتھ ہی لٹیرے بھی ہیں۔ یہ اس سے ثابت ہو جاتا ہے، جب ہم انہیں متاثرین کو گھیر کر مارنے سے پہلے ان کی رقومات اور چیزوں کی لوٹ مار کرتے دیکھتے ہیں۔
آر ایس ایس کے سینئر رضاکار اور نظریہ ساز، ہمارے وزیر اعظم کے ذریعے اگست 2016 میں گئو ماتا کے ان بے لگام اور متشدد بھکتوں کو سماج دشمن عناصر ٹھہرا دیے جانے کے باوجود ان کا پُرتشدد ننگا ناچ جاری ہے۔ وزیر اعظم نے کہا تھا: 'یہ دیکھ کر مجھے بہت غصہ آتا ہے کہ لوگ گائے کی حفاظت کے نام پر دکانیں چلا رہے ہیں... کچھ لوگ رات کے وقت غیر سماجی کاموں میں ملوث رہتے ہیں اور دن میں وہ گئو رکشک کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں۔'
وزیر اعظم کے اس سخت تبصرے کو تقریباً ایک سال ہوا چاہتا ہے لیکن گائے کے نام پر کی جانے والی متشدد کارروائیاں اس عرصے میں اور بڑھ گئیں بلکہ ملک کے بڑے حصے میں پھیل گئی ہیں۔ یہ زیادہ شدید ہو گئیں اور بے قابو بھی۔ اس کی دو وجہیں ہو سکتی ہیں۔ پہلا یہ کہ وزیر اعظم نے محض دکھاوے کے لئے یہ باتیں کہی ہوں، تاکہ اِن مجرمانہ کارروائیوں کے خلاف معاشرے میں پنپ رہے غصے کو کم کیا جا سکے۔ دوسرا یہ کہ مذکورہ گئو رکشک سماج دشمن عناصر نہیں ہیں، بلکہ اصل گئو رکشک ہیں، جنہیں وزیر اعظم کی حمایت حاصل ہے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ان گینگسٹرس کو آر ایس ایس اور انتظامیہ کے ذریعے پورا تحفظ دیا جاتا ہے۔
بدقسمتی سے عدلیہ، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ملک کے حکمرانوں کو آئین کی پاسداری کرتے ہوئے حکومت کرنے پر پابند کرے گی، کئی بار اس نے عوامی مفادات سے جُڑے معاملات میں متاثر کن کام کئے بھی، لیکن پتہ نہیں کیوں اس وقت وہ ان جرائم پیشہ عناصر کے آگے خاموش ہے۔ بلکہ راجستھان ہائی کورٹ کے ایک جج نے 'گئو بھکتوں' کے ذریعے کیے گئے جرائم کی پڑتال کرنے کے بجائے (گئو رکشا کے نام پر کیے جانے والے تشدد میں راجستھان پہلے نمبر پر ہے۔ کچھ وقت پہلے ہی وہاں ان گئو رکشکوں نے پہلو خان کو وحشیانہ طریقے سے مار ڈالا۔ اس واقعہ کا مکمل ویڈیو بھی اپ لوڈ کیا گیا تھا۔) گائے کو قومی جانور قرار دینے اور اس کا قتل کرنے والے کو سزائے موت دینے کی ہدایات جاری کیں۔
بھارت کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے تو جو آر ایس ایس کے ایک اہم مفکر بھی ہیں، گائے کی پاکیزگی پر ایک نئی 'سائنسی' تحقیق تک کا حوالہ دے ڈالا۔ آر ایس ایس کے عہدیداروں کے ایک پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے امریکہ کے محکمہ زراعت کی طرف سے جاری ایک رپورٹ کا ذکر کیا اور کہا کہ "گائے میں 80 فیصد جینس ایسے پائے گئے ہیں جو انسانوں میں بھی موجود ہیں۔" ساتھ ہی انہوں نے ہندوستانی شہریوں سے "گائے کی حفاظت اور اس کی عبادت کرنے" کا اعلان بھی کیا۔
اس میں کوئی تعجب نہیں کہ آر ایس ایس کے یہ رضاکار، راج ناتھ سنگھ اس معاملے میں نہ صرف نا پختہ سوچ والے بلکہ جانبدار اور غلط بھی تھے۔ عالمی سطح کے باوقار رسالے سائنس کی تحقیق کی بنیاد پر بھارت کے ایک اہم انگریزی روزنامہ نے یہ واضح کیا ہے کہ دیگر کئی جانوروں کے جینس، گائے کے جینس سے زیادہ انسانی جینس سے ملتے ہیں۔ چمپانزی (گوریلے)، بلی، چوہے اور کتے میں بالترتیب 96، 90، 85 اور 84 فیصد جینس انسانی جینس کی مانند ملتے ہیں۔ صرف یہ مخلوق ہی نہیں، پھلوں میں بھی یہی صورت حال ہے، جیسے کیلے میں 60 فیصد جینس انسانی جینس کی مانند ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ راج ناتھ سنگھ کب ان کے بھی مقدس ہونے کا اعلان کرتے ہیں۔ ہمیں ان سے یہ جاننے کی بھی ضرورت ہے کہ اقلیتی فرقے سے تعلق رکھنے والے لوگ اور دلت، انسان ہیں یا نہیں؟ ان میں بھی گئو ماتا کے جینس ہیں یا نہیں؟ اور ان کی جانیں متشدد بھیڑ سے بچائی جانا ضروری ہے کہ نہیں؟
گئو رکشکوں کے تازہ شکار (چیننئے واقع) آئی آئی ٹی-ایم کے گوشت خور لوگ ہوئے ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ کے احاطے میں آر ایس ایس کی طلبہ تنظیم [اے بی وی پی] کے   کارکنوں نے ان پر بری طرح حملہ کیا۔ ہندُتووادی کارکنوں کی طرف سے گائے کے نام پر مسلسل کئے جا رہے ان پر تشدد حملوں سے ایک بات تو بالکل واضح ہے کہ یہ فاشسٹ عناصر ہمارے آج کے بھارت کے بارے میں کچھ نہیں جانتے اور ہندوستانی تاریخ کے معاملے میں تو نرے جاہل رکھے ہیں۔ خاص طور سے ویدِك دور کی تاریخ سے یہ مکمل طور پر نابلد ہی ہیں، جسے یہ سنہری دور کے طور پر پیش  کرتے ہیں۔
اگر کوئی جھوٹ اور دھوکہ دہی میں مہارت حاصل کرنے کے لئے کسی گُروکُل یا یونیورسٹی کی تلاش میں ہے تو یقیناً آر ایس ایس اس کے لیے بہتر ادارہ ہوگا۔ اس میدان میں ان کی کارکردگی سے کسی کا کوئی موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت کے ہندوؤں کی گوشت خوری کے بارے میں وہ حقائق کو جھٹلا کر جس طرح کی باتیں کرتے ہیں، اس سے ایک بار پھر ان کی یہ مہارت ثابت ہو رہی ہے۔ وہ تاریخی حقائق کو مجرمانہ طور پر توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہوئے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ بھارت میں بیف کھانے کا چلن مسلمان / عیسائی حکمرانوں کی آمد کے بعد سے شروع ہوا اور ان حکمرانوں نے ہندوؤں اور ان کے مقدس مذہبی عقائد کو پامال کرنے کے لئے بھارت میں گوشت خوری پر زور دیا۔ ایک سوال کہ "ہمارے ملک (بھارت) میں گئو ذبیحہ کس طرح شروع ہوا؟" کے جواب میں پوری طرح جھوٹ بولتے ہوئے، بے شرمی سے آر ایس ایس کے مہان گُرو، گولوالكر نے کہا: "اس کا آغاز ہمارے ملک میں غیر ملکی حملہ آوروں کی آمد کے ساتھ ہوا۔ لوگوں کو غلامی کے لئے تیار کرنے کے مقصد سے انہوں نے سوچا کہ ہندوؤں کی خود اعتمادی سے منسلک ہر چیز کو پامال کرو... اسی سوچ کی وجہ سے گئو کشی بھی شروع کی گئی۔"
یہاں یہ جاننا دلچسپ ہوگا کہ آر ایس ایس نے اپنے قیام (1925) سے لے کر ہندوستان کی آزادی تک، انگریزی راج میں کبھی بھی گئو ذبیحہ بند کرنے کے لئے کسی بھی قسم کی تحریک نہیں چلائی۔
البتہ اس کے ذریعے کئے گئے اس قسم کے پروپیگنڈے نے گوشت کھانے یا اس کا کاروبار کرنے والے ملک کے دو اقلیتی فرقوں اور دلتوں کو دہشت زدہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہاں اس کا بھی خیال رکھا جانا چاہئے کہ ہندُتووادی سیاست کے عروج کے ساتھ ہی گائے ایسا حساس مسئلہ بنا دیا گیا، جس نے ملک میں مسلمانوں اور دلتوں کے خلاف تشدد بھڑکانے کے زیادہ تر معاملات میں مرکزی کردار ادا کیا۔ نازی مبلغ پال جوزف گوئیبلس کے ہندوستانی جانشینوں کے لئے، جو اس کا دعویٰ کرتے ہیں کہ بھارت میں بیف کھانا مسلمانوں / عیسائیوں کے آمد کے ساتھ شروع ہوا، ہندوستانی تاریخ کے ویدِك دور کی ہندو مصنفین کے ذریعے پیش کی گئیں تفاصیل بے کار ہی رہیں۔
آر ایس ایس کے ذریعے ہندو نظریاتی مفکر کے طور پر مستند قرار دیے گئے سوامی وویکانند نے پساڈینا، کیلی فورنیا (امریکہ) کے شیکسپیئر کلب میں 2 فروری 1900 کو 'بُدِّھسٹ انڈیا' موضوع پر اپنے خطاب میں کہا:
"آپ حیران رہ جائیں گے اگر قدیم تفاصیل کی بنیاد پر میں کہوں کہ وہ اچھا ہندو نہیں ہے جو بیف نہیں کھاتا ہے۔ اہم مواقع پر اسے لازماً بیل کی قربانی دینا اور اسے کھانا چاہئے۔"
اس بیان کو ویدِك دور کی تاریخ و ثقافت کے ماہر سی كُنہن راجا کی بات سے تقویت ملتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ راجا نے یہ تحقیقی کام وِویکانند کے قائم کردہ ادارے رام کرشن مشن کے تحت کیا ہے۔ اس میں انہوں نے کہا ہے:
"ویدِك آرينس جن میں برہمن بھی شامل تھے، مچھلی، گوشت، یہاں تک کہ بیف بھی کھاتے تھے۔ ایک معزز مہمان کی مہمان نوازی میں بیف پیش کیا جاتا تھا۔ اگرچہ ویدِك آرينس بیف کھاتے تھے لیکن اس کے لئے دودھ دینے والے گائے کو ذبح نہیں کیا جاتا تھا۔ ایسی گایوں کے لئے اگنيے (جنہیں مارنا نہیں ہے) کا لفظ استعمال کیا جاتا تھا۔ لیکن ایک مہمان گوگھنا (جس کے لئے گائے ذبح کی جانی ہے) مانا جاتا تھا۔ اُس وقت صرف بیل، بانجھ گائے اور بچھڑوں کو ذبح کیا جاتا تھا۔"
ہندوستانی سیاست، مذہب اور ثقافت کے ماہر نیز معتبر محقق ڈاکٹر امبیڈکر نے اس موضوع پر 'کیا ہندوؤں نے کبھی بیف نہیں کھایا؟' کے عنوان سے عمدہ مضمون لکھا ہے۔ وہ لوگ جو واقعی قدیم بھارت کو جاننا، سمجھنا اور اقلیتوں کو کنارے کر اُن کا صفایا کرنے کے لئے گڑھے جانے والے مِتھس کی اصلیت جاننا چاہتے ہیں، انہیں ڈاکٹر امبیڈکر کا یہ تاریخی مضمون ضرور پڑھنا چاہیے۔
ویدِك عہد اور ما بعد ویدك عہد کے انگنت ہندو مسودات کا مطالعہ کرنے کے بعد ڈاکٹر امبیڈکر اس نتیجے پر پہنچے کہ "جب بھی پڑھے لکھے برہمن اس پر بحث کریں کہ ہندوؤں نے کبھی بیف نہیں کھایا اور وہ تو گائے کو مقدس مانتے ہیں اور انہوں نے ہمیشہ گئو ذبیحے کی مخالفت کی ہے تو ان کی بات کو قبول کرنا ناممکن ہے۔"
دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈاکٹر امبیڈکر کے مطابق گایوں کی قربانی اس لئے دی جاتی تھی، ان کا گوشت اس لیے کھایا جاتا تھا کہ وہ مقدس تھیں۔ انہوں نے لکھا: "ایسا نہیں تھا کہ ویدِك دور میں گائے کو مقدس نہیں سمجھا جاتا تھا، بلکہ اس کے مقدس ہونے کے چلتے ہی واجسنيئی سنہِتا میں یہ ہدایت دی گئی ہیں کہ بیف کھانا چاہیئے." (دھرم شاستر وِچار اِن مراٹهی، ص 180)۔ یہ کہ رِگ وید کے آرینس غذا کے لیے گایوں کو ذبح کرتے تھے اور ان کا بیف کھانا رِگ وید سے ہی ثابت ہوتا ہے۔ رِگ وید (x.14.86) میں اِندرا کہتی ہیں: 'انھوں نے ایک بار 20 بیلوں کو ذبح کیا۔' رِگ وید (x.14.91) میں ہے کہ اگنی کے لیے گھوڑوں، بیلوں، بانجھ گایوں اور بھیڑوں کی قربانی کی گئی۔ رِگ وید سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ گایوں کو تلوار یا کلہاڑی سے ذبح کیا جاتا تھا۔"
اپنے مضمون کا اختتام امبیڈکر نے ان الفاظ پر کیا ہے: "اِن تمام ثبوتوں کے رہتے کسی کو شک نہیں ہو سکتا کہ ایک وقت تھا جب ہندو، چاہے وہ برہمن ہوں یا دیگر نہ صرف گوشت خور تھے بلکہ وہ بیف بھی کھاتے تھے۔"
ہندُتوواديوں کے ذریعے بھارت کے کمزور طبقوں کے خلاف کیا جا رہا تشدد آر ایس ایس کے دوغلےپن کو ہی اجاگر کرتا ہے، جو اس کے طور طریقوں و پالیسی کا لازمی حصہ ہے۔ حقیقت میں تو، کسی بھی معاملے پر دو تین طرح کی باتیں کرنا آر ایس ایس کے لئے بہت کم ہی تصور کیا جائے گا۔ ہندُتووادی تنظیمیں، خاص طور پر آر ایس ایس سے منسلک، عام انصاف پسند ہندوستانیوں کا کھلے عام قتل کر رہے ہیں، نہ صرف گئو ذبیحہ کے لئے بلکہ ان جانوروں کو ادھر سے اُدھر لانے لے جانے پر بھی۔ حد تو یہ ہے کہ اُن دلتوں کو بھی موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے، جو قانونی طور پر مردہ گائے کی کھال اتار رہے تھے۔ اسی کے  متوازی آر ایس ایس بی جے پی کے زیرِاقتدار ریاستیں گوا، میزورم، میگھالیہ، ناگالینڈ، اروناچل پردیش اور منی پور ہیں، جہاں گئو ذبیحہ جائز ہے اور بیف وہاں کی بنیادی غذا میں شامل ہے۔ آر ایس ایس کا طریقہ کچھ ایسا ہے کہ کچھ علاقوں میں گئو ذبیحہ کی بات تو دور رہی، گائے کے ساتھ پائے جانے پر بھی آپ کو 'جہنم' رسید کیا جا سکتا ہے اور کچھ علاقوں میں اُس سے وابستہ لوگ گئو ذبیحہ کراتے ہوئے راج کر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ ہمارے ملک میں کیرل جیسی ریاست بھی ہے جہاں گوشت 'سیکولر' غذا ہے!
اس بات کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں کہ گائے کی تجارت اور بیف پر روک نے پہلے ہی اقتصادی مشکلات میں گھرے، اپنی بقا کی جدوجہد کرتے کسانوں کے لئے اور مصیبتیں پیدا کر دی ہیں۔ مودی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد کسانوں کی خود کشی کی شرح 30 فیصد بڑھ گئی۔ ایسے میں گائے کے فروخت پر روک لگانا کسانوں کو کنویں میں دھکے دینا جیسا ہے۔
بطور کسان لیڈر سیاست میں قدم رکھنے والے معروف سیاستداں، شرد پوار گئو سیوا کے بارے میں ایک حیرت انگیز پیشکش لائے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آر ایس ایس کی ہدایت پر مودی حکومت گایوں کی خریدوفروخت اور گئو ذبیحہ پر پابندی لگا رہی ہے۔ اس سے پریشان ہونے والے کسانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے یہاں کی بانجھ یا بیکار گائیں آر ایس ایس کو سونپ دیں، تاکہ وہ بھی گئوماتا کی اچھے سے سیوا کرنے کے مقدس کام میں حصےداری کر سکیں۔ آر ایس ایس کو اس سے کوئی دقت بھی نہیں ہو گی، کیونکہ بھارت سرکار کے بعد سب سے زیادہ زمینیں اُسی کے پاس ہیں۔ پوار نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ آر ایس ایس کو ناگپور کے ریشم باغ واقع اپنا ہیڈکوارٹر، ایک گئوشالا میں تبدیل کر لینا چاہئے، جس سے غریب کسانوں پر اُن گایوں کا پیٹ بھرنے کا بوجھ نہ پڑے اور آر ایس ایس کو گئو سیوا کا پُنیہ یعنی ثواب ملتا رہے۔
اس مقدس جنگ کا ایک واضح ایجنڈا گوشت کے کاروبار سے منسلک قریشيوں (مسلمان)، كھٹيك (ہندو) اور چمڑے کے کاروبار سے منسلک دلتوں کا اقتصادی نظام تہس نہس کرنا بھی ہے۔ اس سے خوردہ کاروبار کی طرح ہونے والی یہ غیر منظم صنعت مر جائے گی۔ جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ بھارت جیسی بڑی منڈی دنیا کی اُن بڑی گوشت کمپنیوں کے حوالے کر دی جائے گی جن کی پروسیسڈ گوشت کے کاروبار پر اجارہ داری ہے۔
آر ایس ایس كئی منه سے خطاب کرتے ہوئے، بہت سے خفیہ ایجنڈوں پر کام کرنے کے فاشسٹ طریقے کو نبھانے میں ماہر ہے۔ ہم وطنوں کو تقسیم کرنے والا کوئی ایک ایجنڈا جب اپنا اثر کھونے لگتا ہے یا زیادہ متنازعہ ہونے لگتا ہے، پھر وہ تھیلے سے کوئی دوسرا ایجنڈا نکال لیتا ہے۔ 'رام مندر'، 'گھر واپسی'، 'لو جہاد' اور اب باری ہے گائے کے نام پر ملک کو بانٹنے کی۔ گائے کا مسئلہ ملک کا واحد مسئلہ بن گیا ہے۔ یہ مسئلہ اصل میں توجہ بھٹکانے کے لئے محض چھلاوا ہے۔ غربت، بے روزگاری، فسادات، اقلیتوں، دلتوں اور خواتین کے خلاف تشدد کے معاملات سے توجہ بھٹکانے کا۔ آر ایس ایس اور بی جے پی سے منسلک حکمراں طبقہ سمجھتا ہے کہ وہ تمام لوگوں کو ہر وقت بے وقوف بناتے رہیں گے۔ یقیناً وہ غلط ثابت ہوں گے، لیکن جب تک ان کا پردہ فاش ہوگا، تب تک تو جمہوری، سیکولر بھارت اور اس کے عوام کا برا حال ہو چکا ہوگا۔
- شمس الاسلام
[انگریزی سے ترجمہ: جاوید عالم، اندور]
-----------------------------------------------------------------

No comments:

Post a Comment