Tuesday, May 12, 2020

1857کی163ویں سالگرہ پر: مشترکہ وراثت جس کوہندتوٹولی ختم کرنے کےلیے کوشاں ہے

1857کی163ویں سالگرہ پر
مشترکہ وراثت جس کوہندتوٹولی ختم کرنے کےلیے کوشاں ہے
10 مئی  1857 بروز اتوارکوشروع ہونے والی ہندوستان کی پہلی جدوجہدِ آزادی میں اس ملک کے ہندو، مسلمان اور سکھوں نے مل کر دنیا کی سب سے بڑی سامراجی طاقت کو چیلنج کیا۔[1] اس بے مثال اتحاد نے برطانوی حکمرانوں کو بخوبی احساس دلایا کہ اگر ہندوستان پر حکمرانی کرنا ہے تو ہر حالت میں ملک کے سب سے بڑے دو مذہبی فرقوں ہندو اور مسلمان کے مابین فرقہ وارانہ تقسیم کو روبہ عمل لانا ہو گا اور ملک کے ان دو بڑے مذہبی فرقوں کے مابین فاصلہ پیدا کرنے کے لئے تمام تر کوششیں کرنی ہوں گی۔ یہی وجہ تھی کہ جنگ کے خاتمے کے بعد، انگلینڈ میں بیٹھے ہندوستانی وزیر امور (لارڈ ووڈ) نے ہندوستان میں برطانوی راج کے سربراہ (لارڈ ایلگین) کو ہدایت کی کہ اگر ہندوستان پرحکومت کرنا ہے تو ہندوؤں اور مسلمانوں کو باہم لڑانا ہوگا اور ’’ہم سب کو وہ سب کچھ کرنا چاہئے، تاکہ ان میں ایک مشترکہ جذبہ فروغ نہ پائے۔‘‘[2]
اس فلسفے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے، سفید فام حکمرانوں اور ان کے ہندوستانی خوشامدیوں نے یہ نظریہ پیش کیا کہ ہندو اور مسلمان ہمیشہ دو مختلف قومیںرہی ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ فرقہ وارانہ سیاست کو ہوا دینا اور مذاہب کی بنیاد پر ہندوستانی معاشرے کو تقسیم کرنا انگریزوں کی مجبوری بن گیا تھا۔ 1857 کی آزادی کی جدوجہد میں، جسے انگریز حکمرانوں نے’فوجی بغاوت‘کا نام دیا تھا، ہندو،مسلم  اورسکھوں کے بڑے حصے نے اتنی بہادری سے جنگ کی اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکمرانی کے خلاف قربانیاں دیں کہ فرنگی حکمرانی تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی۔ اگرچہ انگریز جیت گئے،لیکن یہ صرف غداروں اور جاسوسوں کی سازشوں کی وجہ سے ممکن ہوا۔
اس عظیم جدوجہدِ آزادی کی یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ اس کی قیادت مشترکہ طورپر ناناصاحب، دہلی کے بہادر شاہ ظفر، مولوی احمد شاہ، تاتیا ٹوپے، خان بہادر خان، رانی لکشمی بائی، حضرت محل، عظیم اللہ خان اور شہزادہ فیروز شاہ نے کی۔ اس جدوجہد میں مولوی، پنڈت، گرنتھی، زمیندار، کسان، تاجر، وکیل، نوکر، خواتین، طلباء اور تمام ذات و مذاہب کے لوگوں نے بھی حصہ لیا اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔
ہندو مسلم فرقہ واریت کے موجودہ علم برداروں کو اس تاریخی حقیقت سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے کہ 11 مئی 1857 کو، انقلابی فوج میں، جس نے مسلم بہادر شاہ ظفر کو ہندوستان کا آزاد حکمراں قرار دیا تھا، 70 فیصد سے زیادہ فوجی ہندو تھے۔ بہادر شاہ ظفر کو شہنشاہ بنانے میں نانا صاحب،تاتیا ٹوپے اور لکشمی بائی نے اہم کردار ادا کیا۔
1857 کی جنگ سے متعلق عہد حاضر کی دستاویزات ملک کے چپے چپے میں واقع ہونے والی ایسی داستانوں سے بھری پڑی ہیں، جہاں مسلمان، ہندو اور سکھ اس بات سے قطع نظر کرکے کہ کون قیادت کر رہا ہے، اور اس کی کتنی بھاری قیمت اداکرنی پڑسکتی ہے،متحد ہوکر لڑے اور 1857 کی آزادی میں ایک ساتھ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ اس وقت کے حقائق واضح طور پر بتاتے ہیں کہ ہندو مسلم علیحدگی پسندی اور دونوں فرقوں کے مابین بغض وعداوت کا وجود اس وقت تکایک مسئلے کےطورپر موجود نہیں تھا۔
مختلف مذاہب کے افراد نے جس طرح کی مشترکہ شہادت کی داستانیں رقم کیں، اس کی چند مثالیں، جو اس وقت کے دستاویزات میں موجود ہیں، یہاں پیش کی جارہی ہیں:

دہلی
فرنگیوں نے دہلی پر (جسے 11 مئی 1857 کوانقلابیوں نےبرطانوی حکمرانی سے آزادکراکرایک آزاد ہندوستان کا دارالحکومت قرار دیا تھا) قبضہ کر لیا تھا۔ انھیں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اگر ایک بار دہلی ان کے زیر اقتدارآگئی تو  پورے ملک میں مشتعل جدوجہد کو دبانا مشکل نہیں ہوگا۔ سنہ 1857 میں، جون تا ستمبر، برطانوی فوج نے دہلی کا زبردست محاصرہ کیا اور یہ ان کی مستقل کوشش تھی کہ مذہب کے نام پر دہلی میں موجود فوج اور عوام کو تقسیم کیا جائے۔ لیکن اس وقت کے دستاویزات اس حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ہندو، مسلم اورسکھانگریزوں کےحاشیہ برداروں  اور جاسوسوں کی تمام کوششوں کے باوجود دہلی کی حفاظت کرتے رہے۔ دہلی کی انقلابی فوج کی کمان جن لوگوں کے ہاتھوں میں تھی، ا ن میں محمد بخت، سگھا ری لال، غوث محمد، سردھارا سنگھ اور ہیرا سنگھ تھے۔ انقلابی فوج میں بھی، جسے فرنگی ’پوربیہ‘ فوج کہتے تھے، ہندوؤں کی ہی اکثریت تھی۔
ہندو مسلم اتحادکس اعلیٰ درجے کا تھا،اس کا اندازہ  اس واقعے سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب برطانوی حملے کا مقابلہ کرنے کے لئےشاہجہاں کے زمانے کی توپ کو درست کرکے محاذ پر لگایا جارہا تھا،تو اس توپ کو پہلی بار چلانے سے پہلے بہادر شاہ ظفر اور دیگر فوجی افسران کی موجودگی میں پنڈتوں نے آرتی اتاری، ہار پہنائے اور آشیرواد دیا۔[3]انگریز جاسوس فرقہ وارانہ زہر نہ پھیلا پائیں، اس لیے انقلابی فوج نے دہلی میں بھی گائے کے ذبیحہ پر پابندی عائد کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ جس کو بھی ایسا کرتے پایا جائے گا،  اسے توپ سے اڑا دیا جائے گا۔[4]
ہریانہ
ہانسی (اب ہریانہ میں) میں برطانوی حکمرانوں کے خلاف حکم چند جین[5] اور منیر بیگ[6]کی مشترکہ زبردست مزاحمت اس سلسلے کی ایک زندہ مثال ہے۔ ہانسی اور کرنال کے قانون گو، حکم چند جین، فارسی اور ریاضی کے عالم  اور اپنے علاقے کے ایک بڑے زمیندار تھے۔ 1857 کی جنگ کاعلم ہوتے ہی، وہ دہلی دربار پہنچے جہاں تاتیا ٹوپے بھی موجود تھے۔ انہوں نے اپنے علاقے میں انقلاب کا ذمہ لیا اور اپنے قریبی ساتھی مرزا منیر بیگ کے ساتھ مل کر، جو خود بھی فارسی اور ریاضی میں ماہر تھے، مسلح بغاوت کی تیاریوں کا آغاز کیا۔ان دونوں نے متحدہ طورپر انقلابی فوج کی دہلی کی قیادت کے ساتھ مل کرآج کے ہریانہ علاقے کو(اس دورمیں بھی یہ علاقہ ہریانہ کے نام سے ہی معروف تھا) انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرانے کی حکمت عملی تیار کی۔ایک فیصلہ کن جنگ میں، دہلی کی مددحاصل نہ ہوپانے اور کچھ برطانوی دلال بادشاہوں کی غداری کی وجہ سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ستمبر کے آخر میں انقلابیوں کے ہاتھ سے دہلی نکل جانے کے بعدان دونوں کو  ہانسی میں گرفتار کیا گی اور انہیں سزائے موت سنائی گئی ۔ برطانوی حکمراں ان دونوں سے اس قدر خوف زدہ  اور ہندو مسلم اتحاد کی اس شاندار مثال سے اتنے پریشان تھے کہ انہوں نے 19 جنوری 1858 کو حکم چند کو پھانسی دینے کے بعد سپرد خاک کیاجبکہ منیر بیگ کونذرآتش کیا ۔ انگریزوں کی طرف سے اس مذموم عمل کا واحد مقصد دونوں مذاہب کے ماننے والوں کے اتحاد کا مذاق اڑانا اور انھیں ذلیل کرنا تھا۔ فرنگیوں نے ایک اور شرمناک حرکت یہ کی تھی کہ بہادر حکم چند جین کے 13 سالہ بھتیجے، فقیرچند جین کو ہانسی میں سرعام پھانسی دے دی ،کیوں کہ اس بچے نے انھیں پھانسی دیے جانے کے خلاف احتجاج کیاتھا۔[7]
ایودھیا
ایودھیا آزاد ہندوستان میں ہندو مسلموں میں نفرت پھیلانے کا ایک بڑا مسئلہ بن کر ابھرا ہے۔ بابری مسجد رام جنم بھومی تنازع نے دونوں فرقوں کے مابین عدم اعتماد اور تشدد کی فضا پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ لیکن 1857 میں اس ایودھیا میں، اس طرح کی ان گنت کہانیاں موجود ہیں کہ کیسے مولوی اور مہنت اور عام ہندو مسلم اور سکھوں نے متحد ہوکربرطانوی حکمرانی کے خلاف جنگ لڑی اور انہیں پھانسی پر چڑھا دیاگیا۔
مولانا عامر علی[8] ایودھیا کے ایک مشہور عالم دین تھے اور وہاں کے مشہور ہنومان گڑھی مندر کے پجاری بابا رامچرن داس [9] دونوں کو انگریزوں کے ساتھ ایک جنگ میں حراست میں لیا گیااو، ایودھیا میں کوبیر ٹیلے پر ایک املی کے درخت پر ایک ساتھ  پھانسی پر لٹکادیا گیا۔
ایودھیا نے اس جدوجہد کے دو اور ہیرو پیدا کیے جو دو مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے تھے، جنہوں نے برطانوی فوج کو ناکوں چنے چبوادیے۔ اچھن خان[10] اور شمبھوپرساد شکلا [11]دو دوست تھے،جنہوں نے ضلع فیض آباد میں راجہ دیبی بخش سنگھ کی انقلابی فوج کی کمان سنبھالی تھی۔  ایک جنگ کے دوران انھیں حراست میں لیا گیا، اور، عصری حکومت کے دستاویزات  یہ شرمناک حقیقت آشکارکرتے ہیں کہ ان دونوں انقلابیوں کو خوفناک اذیت کا نشانہ بنایا گیا تھا اور ان کی گردنوں کو سرعام کاٹا گیا تھا۔
ایودھیا،جس نے ہندومسلم اتحاد کے پودےکوخون سے سینچا تھا، وہ بعد میں کیوں انگریز حکمرانوں کی ’تقسیم کرواور حکومت کرو‘ کی پالیسی کا ایک خاص مقام بن کر ابھری، اس کو سمجھنا ذرا بھی مشکل نہیں ہے۔
راجستھان
ریاست کوٹہ (اب راجستھان میں) پر انگریزپرست  مہاراو کا راج تھا۔ یہاں کے ایک راج درباری تھے، راجہ جےدیال بھٹنا گر، جن کو اردو،  فارسی اور انگریزی زبانوں میں مساوی مہارت حاصل تھی،انھوں نے مہاراو اور برطانوی حکمرانوں کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا۔ اس بغاوت میں ان کی حمایت کرنے والوں میں سب سے نمایاں تھے، وہاں کے کمانڈر محراب خان ۔ ان لوگوں نے مل کر ملک بھر میں دوسرے انقلابی گروپوں سے رابطہ قائم کیا اور کوٹہ میں برطانوی افسروں اور فوجیوں پر حملہ کیا۔ بعد میں ان لوگوں نے، لکشمی بائی کے ساتھ مل کر، بہت سے محاذوں پر برطانوی فوج کے ساتھ لڑائی کی۔ لالہ جے دیال 1860 تک انگریزوں کے ہاتھ نہیں لگے لیکن اسی سال 15 اپریل کو جے پور میں گرفتار کیے گئے اور 17 ستمبر 1860 کو کوٹہ میں انھیں پھانسی دے دی گئی۔ محراب خان[12] کو بھی صرف 1860 میں انگریزوں نے گرفتار کیا تھا اور انہیں بھی کوٹہ میں سرعام پھانسی دے دی گئی تھی۔[13]
وسطی ہندوستان
مالوہ
مدھیہ پردیش کے مالوہ علاقے میں برطانوی فوج کو مسلسل شکست دینے والی جو انقلابی فوج سرگرم رہی اس کے مشترکہ ہیروز تاتیا ٹوپے، راؤ صاحب[14]،فیروز شاہ اور مولوی فضل حق تھے۔ان لوگوں نے مل کر انگریزوں سے جتنی جنگیں جیتیں، اس طرح کی مثالیں کم ہی ملتی ہیں۔ مولوی فضل حق اپنے 480 ہندو مسلم اورسکھ ساتھیوں کے ہمراہ 17 دسمبر 1858 کو جنگ رانوڑ میں شہید ہوئے۔[15] تاتیا ٹوپے 1859 تک  جنگ آزادی کی قیادت کرتے رہے اور 18 اپریل 1859 کو گوالیار کے سندھیا راج گھرانے کی غداری کی وجہ سے قید کیے گئے اورسندھیا کی ریاست میں واقع شیوپوری میں انھیں پھانسی دے دی گئی[16] اور فیروز شاہ کبھی انگریزوں کےہاتھ نہیں آئے۔[17]
جھانسی
 وسطی ہندوستان میں رانی لکشمی بائی کی انقلابی مزاحمت سے سب واقف ہیں۔ لیکن بہت سے لوگ نہیں جانتے ہیں کہ رانی لکشمی بائی کے توپ کے خانے کے سربراہ ایک پٹھان، غلام غوث خان تھے۔[18]رانی کے گھوڑسوار فوج کےسپہ سالار بھی ایک مسلمان خدابخش تھے۔[19] جب انگریزوں نے جھانسی پر حملہ کیا تو جھانسی کے قلعے میں رانی کی فوج کی قیادت کرتے ہوئے، وہ 4 جون 1858 کو شہید ہوگئے۔ بہت کم لوگ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ لکشمی بائی کی ذاتی سیکیورٹی آفیسر ایک مسلمان خاتون مندر [منذر] تھیں۔ انھوںنے رانی کے سائے کی حیثیت سے جھانسی، کونچ کالپی اور گوالیار کی لڑائیوں میں انگریزی فوج کا مقابلہ کیا۔ کوٹہ کی سرائے (گوالیار) جنگ میں لڑتے ہوئے وہ رانی کے ساتھ (18 جون، 1858کو) شہید ہوگئیں۔[20]
روہیل کھنڈ
روہیل کھنڈ کے علاقے میں خان بہادر خان کی سربراہی میں بہادر شاہ ظفر کی حکومت کی رضامندی سے آزاد حکمرانی قائم کی گئی۔ خان بہادر خان کے معاون ِ خاص خوشی رام تھے۔ انہوں نے مل کر روہیل کھنڈ کی حکومت کو چلانے کے لئے آٹھ  ہندو اور مسلمان ارکان کی مشترکہ کمیٹی تشکیل دی۔ انگریز دونوں فرقوں کے مابین فسادات نہ کرا سکیں، اس کے لئے ایک حکم نامے کے ذریعے گائے ذبح کرنے پر پابندی عائد کردی گئی ۔ دہلی میں انقلابی حکومت کے خاتمے کے بعد، انگریزوں نے اپنا ہدف صرف روہیل کھنڈہی کوبنایا۔ اسی دن (20 مارچ، 1860کو)، خان بہادر خان، خوشیرام اور ان کے 243 ساتھیوں کو بریلی کمشنر کے سامنے اجتماعی طورپر پھانسی دے دی گئی۔ برطانوی حکمرانوں نے  ان انقلابیوں کی آخری رسوم ادا کرنے پر بھی پابندی عائد کردی جس کے نتیجے میں ان کی لاشیں طویل عرصے تک صلیبوں  پر جھولتی رہیں۔[21]
1857 کی جنگ کے دوران ہندو مسلم اورسکھ اتحاد کسی ایک خطے اور گروہ تک محدود نہیں تھا۔ ان مذاہب کے ماننے والوں میں اتحاد زمینی حقیقت تھی جس سے خواتین بھی مستثنیٰ نہیں تھیں۔ مغربی اترپردیش کے ضلع مظفر نگر کے پرگنہ تھانہ بھون میں ہی انگریزوں کے خلاف بغاوت کرنے پر 11 خواتین کو ایک ساتھ پھانسی دے دی گئی۔ ان میں سے چند  ہیروئنوں کے نام درج ذیل ہیں: اصغری بیگم جنہوں نے انگریزوں کے خلاف مسلح بغاوت میں مرکزی کردار ادا کیا، انگریزوں نے انھیں اسیر کرلیا اورزندہ جلادیا۔[22] اس علاقے کی ایک اور انقلابی خاتون کا نام آشا دیوی تھا، جو گوجر خاندان میں پیدا ہوئیں۔ انھیں بھی برطانوی حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھانے پر1857 میں پھانسی دے دی گئی۔[23] ایک اور انقلابی نوجوان خاتون بھگوتی دیوی تھیں، جو تیاگی خاندان میں پیدا ہوئی تھیں، جنھیں پھانسی دے دی گئی ۔[24] اسی علاقے کی ایک اور انقلابی خاتون حبیبہ تھیں، جن کا تعلق مسلمان گوجر خاندان سے تھا۔ حبیبہ نے برطانوی فوج کے خلاف مظفر نگر کے آس پاس کی مختلف جنگوں میں حصہ لیا اور بالآخر گرفتار کر کے صلیب پر لٹکا دیا گیا۔[25] اسی علاقے کی ایک اور نوجوان خاتون مامکور[26] نے بھی، جو چرواہوں کے خاندان سے تعلق رکھتی تھیں،1857 کی جنگ کے ابتدائی مرحلے میں پھانسی کے پھندے کو چوما۔ سنہ 1857 کی جدوجہد میں ملک کا چپّہ چپّہ اس طرح کی داستانوں سے روبرو ہوتا نظرآتاہے۔
ولیم رسل لندن کے ایک اخبار’دا ٹائمز‘ کا نمائندہ بن کر’بغاوت‘ کا آنکھوں دیکھا حال ارسال کرنے کے لیے ہندوستان آیا تھا۔اس نے 2 مارچ، 1858 کو ارسال کردہ اپنی رپورٹ میں لکھا کہـ
’’اودھ کے تمام بڑے سردار، خواہ وہ مسلمان ہوں یا ہندو، ایک ہوگئے ہیں اورحلف لے چکے ہیں کہ وہ اپنے نوجوان بادشاہ برجیس قدر کے لئے اپنے خون کا آخری قطرہ بھی بہادیں گے۔‘‘[27]
ایک اور برطانوی افسر، تھامس لونےوسطی ہندوستان میں برطانوی فوج کی مہمات میں متواترشرکت کی تھی۔ اس علاقے میں ’باغیوں‘کی پوزیشن کی وضاحت کرتے ہوئے، انہوں نے اپنی سرگزشتوںمیں لکھا،
’’راجپوت، برہمن، مسلمان اور مراٹھا،خدا اور محمد کو یاد کرنے والےاور برہم کی استوتی(حمد) کرنے  والے، سب اس جنگ میں(ہمارے خلاف) تھے‘‘[28]
فریڈ رابرٹس ایک انگریزی فوج کا ہیرو تھا جو لکھنؤ پر قبضہ کرنے کی مہم میں شامل تھا۔ یہاں بھی برطانوی فوج جاسوسوں اور سازشوں کی مدد سے لکھنؤ میں داخل ہوسکی تھی۔ فریڈ نے لکھنؤ پر حملے کی نومبر1857کی داستان ایک خط میں بیان کرتے ہوئے لکھاکہ جب وہ بھاہر میں داخل ہوئے تو سیکڑوں ہندو،مسلمان اور سکھ ’باغی‘ بری طرح زخمی ہوکر سڑکوں پر پڑے تھے اور
’’ آگے بڑھنے کے لئےان پر چڑھ کر گزرنا ہوتا تھا۔ وہ مرتے ہوئے بھی ہمارے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کر رہے تھے اور گالیاں بکتے ہوئے کہہ رہے تھے،’ہم بس کھڑے ہو جائیں پھرتمہیں  زندہ نہیں چھوڑیں گے‘۔‘‘[29]
بد سے برتر حالات میں بھی ہندو، مسلم اور سکھ پورے ملک میں اس طرح کی مشترکہ شہادت کی لاتعداد مثالیں پیش کررہے تھے۔یہ جذبۂ اتحاد کس درجے کا تھا، اس کا اندازہ 1857 کی جنگ آزادی کے اس اردو ترانے سے لگایا جا سکتاہے، جسے اس عظیم جدوجہد کے ایک اہم مدبر عظیم اللہ خان نے تصنیف کیا تھا۔ یہ ترانہ انقلابی فوج کا سلامی گیت بھی تھا اور دہلی سے شائع ہونے والے اردو اخبار 'پیامِ آزادی' میں 13 مئی کو شائع ہوا تھا۔
ہم ہیں اس کے مالک ہندوستان ہمارا
پاک وطن ہے قوم کا جنت سے بھی پیارا
یہ ہماری ملکیت ہندوستان ہمارا
اس کی روحانیت سے روشن ہے جگ سارا
کتنا قدیم، کتنا نعیم سب دنیا سے نیارا
کرتی ہے زرخیز جسے گنگ وجمن کی دھارا
اوپر برفیلا پربت پہریدار ہمارا
نیچے ساحل پر بجتا ساگر کا نقارا
اس کی کانیں اگل رہیں سونا، ہیرا، پنّا
اس کی شان وشوکت کا دنیامیں ہے جے کارا
آیا فرنگی دورسے،ایسامنتر مارا
لوٹا دونوں ہاتھوں سے پیارا وطن ہمارا
آج شہیدوں نے تم کو، اہل وطن للکارا
توڑو غلامی کی زنجیریں، برساؤ انگارا
ہندو مسلماں، سکھ ہمارا بھی پیاراپیارا
یہ ہے آزادی کا جھنڈا اسے سلام ہمارا
ہندومسلم کی ایک دوسرے کے لئے مرمٹنےکی داستانوں کی یہ شاندار تاریخ واقعتا  162 سال قبل موجود تھی۔ آج بھی اس کی تصدیق کی جاسکتی ہے۔ یہ حقائق انگریزی گورنمنٹ کے آرکائیوز،لوگوں کے ذاتی ذخیروں اورداستانوں میں محفوظ ہیں۔ یہ سمجھنا ذرا بھی مشکل نہیں ہے کہ اس ملک کے ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین نفرت کیوں پیدا کی گئی اور اسے کس نے ہوا دی۔ فرنگی کا خیال تھا، جیسا کہ اس وقت کے ایک ممتاز برطانوی افسر چارلس میٹکاف نے کہا تھا،’’1857 کی بغاوت ہندوؤں اور مسلمانوں کا مشترکہ کام تھا۔‘‘اس طرح فطری بات ہے کہ سنہ 1857 کی جدوجہد میں ہندوؤں  اور مسلمانوں کے مابین زبردست اتحاد نےغیر ملکی حکمرانوں کی نیند حرام کر دی تھی اور ان کی حکومت ختم ہونے کا خطرہ سر پر منڈلارہا تھا۔ اس خطرے کو ہمیشہ کے لئے تب ہی ٹالا جا سکتا تھا جب ہندو اور مسلمان مختلف سمت اختیار کریں۔ در حقیقت ہندو اور مسلم فرقہ واریت کے علم برداروں نے انگریز حکمرانوں کی مددکرنے کے سوا اور کچھ نہیں کیا۔ ہمیںآج اس حقیقت کوقطعی نظرانداز نہیں کرنا چاہئے کہ درحقیقت آج کی فرقہ وارانہ  سیاست 1857 کے دوران ہندو ،مسلم اورسکھ اتحاد سے پریشان برطانوی حکمرانوں کی تدبیر تھی، جسے ہندوستانی چاکروں نے نافذ کیا تھا اور موجودہ ہندتووادی حکومت اسے پوری بےشرمی سے نافذکر رہی ہے۔ اس کا مقابلہ صرف 1857 کی عظیم شہادت سے پیدا ہونے والی مشترکہ وراثت کی یادوں کو تازہ کرکے ہی کیا جاسکتا ہے۔
شمس الاسلام
09 مئی 2020
شمس الاسلام کے تحریر کردہ انگریزی، ہندی، اردو، مراٹھی، ملیالم، کنڑا، بنگالی، پنجابی، گجراتی  مضامین اور کچھ ویڈیو انٹرویو / بحث کے لیےملاحظہ کریں:
Facebook: shamsul
Twitter: @shamsforjustice
http://shamsforpeace.blogspot.com/



[1]۔اس جنگ عظیم میں دیگر مذاہب کے لوگ بھی شامل تھے، جیسا کہ ہمیں اس داستان سے معلوم ہوگا، لیکن عصری دستاویزات میں ان ہی تین مذاہب کے لوگوں کا ذکر ہے۔
[2]۔Pande, BN, The Hindu Muslim Problem, Gandhi Smriti&DarshanSamiti, Delhi, p. vi
[3] Metcalf, Charles Theophilus, Two Narratives of the Mutiny of Delhi, A Constable & Company, London, 1898, pp. 125-126.
[4]۔دہلی میں موجود انگریزوں کےجاسوس، رام جی لال علی پوریا کے پہاڑی پر واقع انگریز ی فوج کے کیمپ کو 19جولائی 1857کو تحریر کردہ خط،ملاحظہ ہو، شمس الاسلام( ایڈیٹڈ)، جاسوسوں کے خطوط،فاروس، دہلی، 2019، صفحہ:86
[5] Chopra, P. N. (Ed.), Who’s Who of Indian Martyrs 1857, vol. 3, Government of India, Delhi, 1973, p. 56. It is the most authentic narrative of the 1857 martyrs as data was collected from police, administrative records and the British gazetteers. It is to be noted as admitted in the preface by Professor Nurul Hasan that loss and non-availability of records "prevents us from acknowledging here thousands of other patriots whose name may remain unknown."

[6]۔ایضاً، صفحہ:102
[7]۔ ایضاً، صفحہ:102
[8]۔ایضاً، صفحہ:9
[9]۔ ایضاً، صفحہ:120
[10]۔ایضاً، صفحہ:3
[11]۔ ایضاً، صفحہ:139
[12]۔ ایضاً، صفحہ:62-63
[13]۔ایضاً، صفحہ:91
[14]۔ ایضاً، صفحہ:125، وہ 1862 تکانگریزوںکےہاتھنہیںآئے،لیکنایک مراٹھا رجواڑے کی جاسوسی کرنے پرجموں علاقے سے بیوی اور بچے کے ساتھ گرفتار کرلیے گئے۔ انھیں کانپور میں20 اگست 1862کو پھانسی دی گئی۔
[15]۔ ایضاً، صفحہ:115
[16]۔ ایضاً، صفحہ:116
[17]۔ ایضاً، صفحہ:41-42
[18]۔ایضاً، صفحہ:41-42
[19]۔ ایضاً، صفحہ:75
[20]۔ ایضاً، صفحہ:102
[21]۔ ایضاً، صفحہ:73-74، 76
[22]۔ ایضاً، صفحہ:11
[23]۔ ایضاً، صفحہ:11
[24]۔ایضاً، صفحہ:21
[25]۔ ایضاً، صفحہ:49
[26]۔ایضاً، صفحہ:87
[27]۔ Russell, William Howard, My Diary in India, in the Year 1858-9, vol. 1, Routledge, London, 1860, p. 244.
[28]۔ Lowe, Thomas, Central India: During the Rebellion of 1857 and 1858, Longman, London, 1860, p. 324.
[29]۔ Roberts, Fred., Letters Written During the Mutiny, Macmillan, London, 1924, pp. 103-104.

No comments:

Post a Comment