Wednesday, July 3, 2019

دو قومی نظریہ کے گنہگار: ہندو قوم پرستوں کی تخلیق، جسے جناح نےگود لیا


Top of Form
Bottom of Form



دو قومی نظریہ کے گنہگار: ہندو قوم پرستوں کی تخلیق، جسے جناح نےگود  لیا
پیش لفظ
آر ایس ایس اور بی جے پی کے زیعے پالے جانے والے زہریلے عناصر نے جناح کی تصویر کو مسئلہ بنا کر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) پر گزشتہ دنوں جو حملے کئے، ان کے بعد دو قومی نظریہ ایک بار پھر زیرِبحث آ گیا۔ یونیورسٹی طلبا یونین کے دفتر میں محمد علی جناح کی یہ تصویر گزشتہ 80 سالوں سے لگی ہے، جس پر اعتراض کر ہندوتو بریگیڈ اپنی روایت کے مطابق ہی مسلمانوں کی حب الوطنی پر سوال کھڑے کر رہی ہے۔ یہ کام بی ایس مُنجے، بھائی پرمانند، وِنايك دامودر ساورکر، ایم ایس گولولکر اور دیگر ہندو قوم پرستوں کے سلسلے سے آنے والے لوگ کر رہے ہیں، جنہوں نے نہ صرف دو قومی نظریہ پیش کیا بلکہ (جارحانہ طور پر مطالبہ کیا کہ مسلمانوں کو ہندوستان سے نکال باہر کیا جائے، جو پہلے ہندو راشٹر تھا) آج بھی جن کا عقیدہ ہے کہ ہندو اور مسلمان دو علاحدہ راشٹر (قومیں) ہیں۔ بھارت کے سیاسی منظر نامے پر جناح یا مسلم لیگ کے طلوع ہونے سے بہت پہلے آر ایس ایس کے لوگ، جو آج ہندوستان کے حکمراں ہیں، متواتر یہ مطالبہ کرتے آئے ہیں کہ مسلمانوں اور عیسائیوں سے ان کے شہری حقوق چھین لئے جانے چاہئیں۔
دنیا بھر میں پھیلے اپنے دوستوں اور خیر خواہان کے اصرار پر دو قومی نظریے کے اس طالب علم کو یہ وقت مناسب لگا کہ اس موضوع کا خاطر خواہ اور مستند مطالعہ پیش کر دیا جائے، جس سے دو قومی نظریے کے آغاز سے لے کر آج تک کے اس کے سفر کو سمجھا جا سکے۔
اس وقت دنیا کی کوئی فاشسٹ تنظیم دوغلی باتیں کرنے، اور نت نئی سازشیں رچنے میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ سن 2002ء میں گجرات میں کئے گئے مسلمانوں کے قتلِ عام پر لکھتے وقت بھارت کے ایک کثیرالاشاعت انگریزی روزنامے نے آر ایس ایس کے بارے میں نامور مصنف جارج آرویل کے ذریعے استعمال کی گئی اصطلاح 'ڈبل اسپیک' (دو مُنها) کو اس تخریب کار تنظیم کے لئے کمتر بتایا تھا۔[i] جہاں تک اس تنظیم کی سازشانہ ذہنیت کا تعلق ہے، اسے سب سے پہلے کسی اور نے نہیں ڈاکٹر راجندر پرشاد، جو پہلے صدر جمہوریہ ہند تھے، نے بھانپ لیا تھا۔ انہوں نے ملک کے پہلے وزیر داخلہ سردار پٹیل کو اس جانب متوجہ بھی کیا،
"مجھے بتایا گیا ہے کہ آر ایس ایس کے لوگ بدامنی پھیلانے کے لئے شر انگیزی کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے لوگوں کو مسلمانوں کی طرح بھیس بنا کر تیار کیا ہے، جو ہندوؤں پر حملہ کریں گے، جس سے ہندو بھڑک جائیں۔ اسی طرح انہوں نے کچھ ہندوؤں کو تیار کیا ہے جو مسلمانوں پر حملہ کرکے انہیں بھڑکائیں گے۔ اس طرح ہندوؤں اور مسلمانوں کے بیچ ایک بڑا تنازع کھڑا ہو جائے گا۔[ii]
 پاکستان کے بانی محمد علی جناح کے سہارے، ہندُتووادی شرارتی عناصر کے ذریعے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پر کیے جا رہے حالیہ حملوں میں آر ایس ایس کا یہی تخریب پسند کردار سامنے آتا ہے۔ یہاں مختصراً یہ معاملہ درج کیا جاتا ہے: 2 مئی 2018 کو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی طلبہ یونین کی طرف سے ہندوستان کے سابق نائب صدر ڈاکٹر حامد انصاری کو یونین کی تا حیات رکنیت تفویض کرنے کے لئے ایک پروگرام کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس موقع پر، سابق نائب صدر طالب علموں سے خطاب بھی کرنے والے تھے۔ ملک کے سابق نائب صدر کے پروگرام کو پروٹوکول کے تحت انٹیلیجنس ایجنسیوں اور مقامی انتظامیہ نے گرین سگنل دے دیا تھا۔
انصاری کے مطابق ان کے اس پروگرام کی جانکاری سب کو تھی اور متعلقہ افسران کو اس کے بارے میں باضابطہ طور پر بتا بھی دیا گیا تھا، تاکہ فنکشن کے لیے حفاظتی انتظامات سمیت دیگر امور کا نظم بھی خاطر خواہ کر لیا جائے۔ اس کے باوجود "یونیورسٹی کے اُس گیسٹ ہاوس تک شرارتی عناصر کا پہنچ جانا، جہاں میں ٹھہرا ہوا تھا، سمجھ سے پرے ہے۔"[iii] ہندُتووادی شدت پسند اس حملے کو یہ کہہ کر جائز ٹھہرا رہے ہیں کہ طلبہ یونین کے دفتر میں بانیئ پاکستان جناح کا فوٹو آخر لگا ہی کیوں ہے۔ حالانکہ جناح کی یہ تصویر وہاں سن 1938 سے لگی ہے، جب اُنہیں طلبہ یونین کی تاحیات رکنیت دی گئی تھی۔ ہندُتووادی بریگیڈ کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس بات کو 80 برس ہونے کو آئے، وہ تو اب اس معاملے کو اٹھا رہے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ اترپردیش میں ان کی سرکار ہندوؤں کا اعتماد کھوتی جا رہی ہے، جس کی بدولت وہ برسرِاقتدار آ پائے ہیں۔ انصاری ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پر اس حملے کے لیے وقت کا انتخاب اور "اسے جائز ٹھہرانے کے بہانے کھوجنا"، اہم سوالات کھڑے کرتا ہے۔ ہتھیاربند ہندو شدت پسند وہاں سے جناح کی تصویر ہٹانے کا مطالبہ کرتے ہوئے ہنگامہ کھڑاکر دیتے ہیں، یہ سوچ کر کہ ملک کے عوام کو شاید پتہ نہ ہو کہ بانِئ پاکستان محمد علی جناح سن 1942-43 میں ہندو مہا سبھا کے ساتھ مل کر مشترکہ سرکار چلا رہے تھے، جس کی بات ہم آگے کریں گے۔
جناح کے بارے میں کچھ حقائق، جنہیں جاننا ضروری ہے۔۔۔
  بہتر ہوگا کہ ہم جناح کے ماضی سے جُڑے اُن حقائق کی بابت بھی کچھ واقفیت حاصل کر لیں کہ مسلم علاحدگی پسندی کا علم اٹھانے سے پہلے وہ کس نہج پر کام کر رہے تھے۔ اس سے پہلے اصل میں جناح کانگریس کے قدآور لیڈر اور پکے سیکولرِسٹ تھے۔ دادا بھائی نوروجی، گوپال کرشن گوکھلے، اینی بیسینٹ، ایم کے گاندھی، نہرو (موتی لعل و جواہر لعل نہرو)، مولانا آزاد، سردار پٹیل اور انہیں کی طرح کے بڑے کانگریسی لیڈران کے ساتھ جناح نے انگریز حکمرانوں کے خلاف جنگِ آزادی میں سرگرم کردار نبھایا۔
انگریز حکمرانوں کے خلاف وہ دہشت گرد اقدام کے حامی نہیں تھے، لیکن جب بھگت سنگھ جیل میں تھے اور انہیں پھانسی کی سزا سنانے کا قانونی عمل، ان کی عدم موجودگی میں شروع کر دیا گیا تو اُس دور کی پارلیمنٹ، سنٹرل اسمبلی میں 12 ستمبر 1929 کو جناح نے اِس ایکطرفہ سنوائی کے خلاف ایک موئثر بیان دیا۔ جناح نے کہا:
  "جو شخص بھوک ہڑتال کرتا ہے، اس کی روح بیدار ہوتی ہے۔ وہ اسی روح سے تحریک پاتا ہے اور اپنے فرائض کی انجام دہی کے لیے انصاف میں یقین رکھتا ہے۔ وہ عام مجرم نہیں ہے، جو بے رحمی سے کیے گئے متشدد جرم کا ذمہ دار ہو۔۔۔ میں بھگت سنگھ کی حمایت نہیں کر رہا، میں اسے قبول کرتا ہوں کہ صحیح یا غلط آج کا نوجوان مشتعل ہے۔۔۔ چاہے آپ نے انہیں حد سے زیادہ بھڑکا دیا ہو یا چاہے آپ یہ کہیں کہ انہیں بہکایا جا رہا ہے، یہ نظام ہے، یہی حکمرانوں کا قابلِ مذمت نظام، اب جس کی لوگ سخت مخالفت کر رہے ہیں۔"[iv]
اس سے پہلے سن 1916 میں وہ بال گنگا دھر تِلک (ہندُتو وادیوں کے خاص چہیتے) کے خلاف چل رہے بغاوت کے مقدمے میں تلک کے وکیل تھے۔ اس میں تلک کو موت کی سزا بھی ہو سکتی تھی، مگر جناح نے اس مقدمے میں انگریز سرکار کے خلاف تاریخی فتح حاصل کی، جو غیر ملکی حکمرانوں کے لیے بےحد شرمناک تھا۔
1935 کے آس پاس لاہور میں ایک مذہبی مقام کو لے کر سکھوں و مسلمانوں کے بیچ ایک بڑا تنازع کھڑا ہو گیا۔ سکھوں کے مطابق یہ شہیدی گرودوارا تھا، جبکہ مسلمان اسے مسجد قرار دے رہے تھے۔ اس معاملے میں مسلم فریق اپنا مقدمہ لڑنے کی خواہش لے کر جناح کے پاس پہنچے، لیکن جناح نے ان کی بات نامنظور کر دی اور اس معاملے سے دوری بنائے رکھی۔ 1920-21 میں وہ گاندھی کی قیادت میں کام کر رہی کانگریس سے الگ ہو گئے، کیونکہ گاندھی عوام کی سیاست، خصوصاً مذہبی قیادت کو قومی سطح کی سیاست میں شامل کرنے کے خلاف تھے۔ کانگریس نے جناح کو الگ تھلگ کرنے کی کوشش کی۔ اس کوشش کے خلاف کھڑے ہونے کے بجائے جناح نے مسلم لیگ کا رخ کر لیا۔ اُسی مسلم لیگ کا، جسے وہ مسلم قوم کے زردار سامنت وادی طبقے کی نمائندگی کرنے والی تنظیم قرار دے چکے تھے۔ مذہبی عقائد و ذاتی اعمال کی بنیاد پر انہیں ایک مذہبی مسلمان کی صف میں نہیں رکھا جا سکتا۔ انہیں خنزیر کا گوشت پسند تھا اور ان کی شامیں شراب نوشی میں گزرتی تھیں۔ اتفاق سے وہ اردو پڑھنا لکھنا بھی نہیں جانتے تھے۔ اس کے بجائے انگریزی و گجراتی میں انہیں مہارت حاصل تھی۔
اہم حقیقت  یہ ہے کہ جناح جب ہندو مسلم اتحاد کے حامی تھے اور متحدہ ہندوستان کی آزادی کے لیے کی جانے والی جدوجہد میں برابر کے شریک تھے، تب ہندُتووادی انہیں بدنام کرنے میں لگے تھے۔ گاندھی، موتی لعل نہرو، آزاد ہندوتووادیوں کے اگلے شکار تھے۔
جناح نے نہیں ہندو راشٹروادیوں نے پیش کیا تھا دو قومی نظریہ
مسلمانوں کے ایک طبقے کے ذریعے دو قومی نظریے کی حمایت کیے جانے سے بہت پہلے ہندو راشٹروادیوں نے اِس کی داغ بیل ڈال دی تھی۔ اس نظریے کے حامی مسلم لیگی مسلمان اصل میں تو ان ہندو راشٹروادیوں کے نقشِ قدم پر چل رہے تھے۔ انہوں نے یہ نظریہ ہندتووادی مفکرین سے مستعار لیا تھا۔
سب سے پہلے اونچی ذات کے بنگالی ہندووں نے پیش کیا تھا ہندو راشٹر کا تصور
اُنیسویں صدی کے آخر میں بنگال کے ہندو راشٹروادیوں نے یہ تصور پیش کیا۔ اربِندو گھوش کے نانا راج ناراین بسو (1826-1899) اور ان کے قریبی ساتھی نبھا گوپال مِترا (1840-94) کو ہندوستان میں دو قومی نظریے اور ہندو راشٹرواد کا بانی کہا جا سکتا ہے۔ راج ناراین بسو نے قوم پرستانہ جذبات پیدا کرنے کے لیے ایک سوسائٹی بنائی تھی، جو مقامی پڑھے لکھے طبقوں میں ہندو تہذیب کی برتری کی تشہیر کرتی تھی۔ وہ میٹنگس کا انعقاد کرکے ان میں دعویٰ کرتے کہ ذات پات پر مبنی سماج ہونے کے باوجود ہندواِزم ایک اعلیٰ درجے کا مثالی سماجی نظام پیش کرتا ہے، جس تک عیسائی و اسلامی تہذیب کبھی نہیں پہنچ پائیں۔
بسو، دیگر مذاہب کے مقابلے ہندواِزم کو نہ صرف برتر مانتے تھے بلکہ وہ ذات پات والے نظام کے بھی کٹّر حمایتی تھے۔ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے مہا ہندو سمیتی کا تصور پیش کیا اور بھارت دھرم مہا منڈل قایم کرنے میں مدد کی، جو بعد کو ہندو مہا سبھا بن گئی۔ انھیں یقین تھا کہ اس تنظیم کے ذریعے ہندو بھارت میں آریہ راشٹر قایم کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔ انہوں نے یہ تصور بھی کر لیا تھا کہ ایک طاقتور ہندو راشٹر کا جنم ہو رہا ہے، جس کی حکمرانی نہ صرف پورے ہندوستان پر بلکہ پوری دنیا پر ہوگی۔ انہوں نے تو یہ تک دیکھ لیا کہ
"عظیم الشان و طاقتور ہندو راشٹر نیند سے جاگ گیا ہے اور روحانیت کے ساتھ ترقی کی جانب بڑھ رہا ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ پھر سے بیدار ہو چکا یہ راشٹر اپنے علم، روحانیت اور تہذیب کے نور سے سنسار کو دوبارہ جگمگا رہا ہے۔ ہندو راشٹر کا جاہ و جلال ایک بار پھر سے دنیا میں جلوہ فگن ہو رہا ہے۔"[v]
نبھا گوپال مِترا ایک سالانہ ہندو میلے کا انعقاد کرنے لگے۔ عموماً بنگالی سال کے آخری دن یہ میلہ لگایا جاتا، جس میں بنگال کے ہندو طریقِ زندگی سے جُڑے تمام پہلووں کو پیش کیا جاتا۔ 1867 سے 1880 تک یہ میلا لگاتار چلتا رہا۔ ہندووں میں ایکتا و ان میں جذبہِ قومیت کی تشہیر کے لیے مِترا نے ایک راشٹریہ ہندو سوسائٹی بنائی اور ایک اخبار کی شروعات کی۔ اپنے اخبار میں مِترا کا کہنا تھا کہ ہندو اپنے دم پر خود ایک ہندو راشٹر قایم کر سکتے ہیں۔ ان کے مطابق،
"بھارت میں راشٹریہ ایکتا کی بنیاد ہی ہندو دھرم ہے۔ یہ ہندو راشٹرواد مقامی سطح پر و زبانیں الگ الگ ہونے کے باوجود ہندوستان کے ہر ایک ہندو کو اپنے میں شامل کر لیتا ہے۔"[vi]
بنگال میں ہندو راشٹرواد کے عروج پر گہری نظر رکھنے والے آر سی مجُمدار کو اس حقیقت تک پہنچنے میں وقت نہیں لگا کہ
"نبھا گوپال نے جناح کے دو قومی نظریے کو آدھی صدی سے بھی پہلے پیش کر دیا تھا۔"[vii] تبھی سے "جانے انجانے میں پورے ہندوستان کے راشٹرواد پر ہندو مت کی چھاپ نظر آتی ہے۔"[viii]
آریہ سماج کا کردار
شمالی ہند میں تو آریہ سماج کا یہی جارحانہ اعلان تھا کہ ہندوستان میں ہندو اور مسلمان، حقیقت میں دو الگ الگ قومیں ہیں۔ بھائی پرمانند (1874-1947) شمالی ہند میں آریہ سماج کے اہم کارکن اور کانگریس و ہندو مہا سبھا کے لیڈر تھے۔ انہوں نے بڑے پیمانے پر مسلم مخالف ادب تیار کیا، جس میں اس بات کو پُرزور طریقے سے پیش کیا گیا تھا کہ ہندوستان ہندوؤں کی سرزمین ہے، جہاں سے مسلمانوں کو باہر کیا جانا چاہیے۔
وی ڈی ساورکر (1883-1966) ایم ایس گولولکر (1906-1973) جنہوں نے مفصل طور پر ایسے ہندو راشٹر کے تصورات پیش کیے، جن میں اقلیتوں کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ ان سے عرصہ پہلے یہ بھائی پرمانند تھے، جنہوں نے بیسویں صدی کے آغاز میں ہی کہا کہ ہندواِزم کو ماننے والے اور اسلام، ہندوستان میں دو الگ الگ طبقے ہیں، کیونکہ مسلمان جس مذہب کو مانتے ہیں وہ عرب سے نکلا ہے۔ بھائی پرمانند نے خاص طور سے اردو میں ایسا ادب تیار کیا، جس میں زور دے کر کہا جاتا تھا کہ ہندو ہی ہندوستان کی سچی اولادیں ہیں اور مسلمان باہری لوگ ہیں۔ سن 1908-09 کے آغاز میں ہی انہوں نے مخصوص علاقوں سے ہندو و مسلم آبادی کے تبادلے کا منصوبہ پیش کر دیا۔ اپنی خودنوشت میں انہوں نے یہ خاکہ پیش کیا تھا، جس کے مطابق:
"سندھ کے بعد کی سرحد کو افغانستان سے ملا دیا جائے، جس میں شمال مغربی سرحد کے علاقوں کو شامل کر کے ایک عظیم مسلم سلطنت قایم کر لیں۔ اس علاقے کے ہندوؤں کو وہاں سے نکل جانا چاہیے۔ اسی طرح ملک کے دیگر حصوں میں آباد مسلمانوں کا وہاں سے نکل کر اس نئی جگہ بس جانا چاہیے۔" [ix]
 لاجپت رائے (1865-1928) ایک ساتھ ہندو مہاسبھا، کانگریس اور آریہ سماج کے جانے مانے لیڈر تھے۔
"جناح کا زہریلے دو قومی نظریے کو 1939 میں پیش کرنا اور 1940 میں تباہ کن تقسیمِ ہند کے مطالبے سے بہت پہلے لالہ لاجپت رائے اور ساورکر جیسے ہندو مہا سبھا کے نیتاؤں نے کھلے طور پر (دو قومی) نظریے کی حمایت کی تھی۔۔۔"[x] 1899 میں لاجپت رائے نے انڈین نیشنل کانگریس کی فکر پر ہندوستان ریویو نام کے مجلے میں ایک مضمون لکھا۔ اس میں انہوں نے اعلان کیا کہ "ہندو اپنے آپ میں ایک قوم ہیں، جو سب کی نمائندگی کرتے ہیں۔"[xi]
1924 میں انہوں نے دو قومی نظریے کی بات بہت واضح طور پر کہی تھی، انہوں نے لکھا:
"میرے منصوبے کے مطابق مسلمانوں کو چار صوبے: پٹھانوں کا شمال مغربی حصہ، مغربی پنجاب، سندھ اور مشرقی بنگال ملیں گے۔ اگر کسی دیگر حصے میں مسلمان اتنے زیادہ ہوں کہ ایک صوبہ بنایا جا سکے، تو اُسے بھی یہی شکل دی جائے لیکن اتنا بہت اچھے سے سمجھ لیا جانا چاہیے کہ یہ ایک مشترکہ بھارت یعنی یونائیٹیڈ انڈیا نہیں ہوگا۔ اس کا مطلب ہندوستان کی ہندو انڈیا اور مسلم انڈیا میں واضح تقسیم ہے۔"[xii] 
لالا لاجپت رائے نے پنجاب کی تقسیم کی تجویز ان الفاظ میں رکھی،
"میں ایک ایسے حل کی صلاح دوں گا، جس سے ہندوؤں و سکھوں کے جذبات مجروح کیے بغیر مسلمان ایک موثر اکثریت پا سکتے ہیں۔ میرا مشورہ ہے کہ پنجاب کو دو صوبوں میں بانٹ دیا جانا چاہیے۔ مسلمانوں کی اکثریت والے مغربی پنجاب میں مسلمانوں کی حکومت ہو اور مشرقی پنجاب جس میں ہندو و سکھ زیادہ تعداد میں ہیں، اُسے کسی غیر مسلم کی حکمرانی میں ہونا چاہیے۔" [xiii]
اس کا خیال رکھا جانا چاہیے کہ لاجپت رائے اور ان کے ہم خیال لوگوں کے دو قومی نظریے بابت خیالات کا اس نظریے کے حامی مسلمانوں کو علم تھا۔ انہوں نے ان راشٹر اور قوم مخالف خیالات سے لوہا لینے کے بجائے انہیں قبول کر لیا۔
دو قومی نظریے کے ہندو پیروکار راشٹروادی مُنجے، ہردیال، ساورکر اور گولولکر
کانگریس کے ایک اور بااثر نیتا ڈاکٹر بی ایس مُنجے تھے، جنہوں نے ہندو مہاسبھا کے پھلنے پھولنے اور آر ایس ایس کے قیام میں مدد کی۔ انہوں نے تو 1940 میں مسلم لیگ کے ذریعے پاکستان کا مطالبہ کیے جانے سے بہت پہلے ہندو علاحدگی پسندی کی حمایت کر دی تھی۔ منجے نے 1923 میں ہندو مہاسبھا کے تیسرے اجلاس کو خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ:
جیسے انگلینڈ انگریزوں کا، فرانس فرانسیسیوں کا اور جرمنی جرمن باشندوں کا ہے، اسی طرح بھارت ہندوؤں کا ہے۔ اگر ہندو منظم ہو جاتے ہیں تو وہ انگریزوں اور ان کے پِٹّھوؤں کو بس میں کر سکتے ہیں... دیگر کمیونٹیز کی شُدّھی کرکے اپنی دنیا خود تعمیر کر سکتے اور تنظیم بھی بنا سکتے ہیں۔[xiv]
یہ منجے کی کم علمی ہی تھی، جو وہ انگلینڈ، فرانس اور جرمنی کی مثال دے کر کہہ رہے  تھے کہ بھارت ہندوؤں کا ہے۔ انگلش، فرنچ اور جرمن شناخت کا مذہب سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ ان ممالک کے باشندوں کی شناخت سیکولر باشندوں کے طور پر تھی۔
مسلم لیگ کے ذریعے مسلمانوں کے لئے الگ ملک کا مطالبہ کیے جانے سے بہت پہلے، غدر پارٹی کے سلسلے میں مشہور ہو چکے لالہ ہردیال (1884-1938) نے سن 1925 میں ہی بھارت میں نہ صرف ایک علاحدہ ہندو راشٹر کی بات کہی تھی، بلکہ افغانستان کے ہندوائے جانے کا بھی مشورہ دے دیا تھا۔ سن 1925 میں ان کا ایک اہم سیاسی بیان کانپور سے شائع ہونے والے پرتاپ میں آیا تھا، جس میں انہوں نے کہا:
"میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ ہندوستان اور پنجاب کی ہندو نسلوں کا مستقبل ان چار بنیادوں ہر ٹِکا ہوا ہے: 1. ہندو سنگٹھن 2. ہندو راج 3. مسلمانوں کی شُدّھی اور 4. افغانستان اور سرحدی علاقوں کی فتح اور شُدّھی۔ ہندو راشٹر جب تک یہ چاروں کام نہیں کرتا تو ہمارے بچے اور ان کے بعد کی اولادیں اور ہندو نسل ہمیشہ خطرے میں رہیں گے، ان کی حفاظت ناممکن ہوگی۔ ہندو نسل کی تاریخ ایک ہی ہے اور ان کے سماج مشترک ہیں۔ جبکہ مسلمان اور عیسائی ہندوستانی اثرات سے اچھوتے ہیں۔ وہ اپنے مذاہب نیز فارسی، عرب اور یورپی معاشرے کو ترجیح دیتے ہیں، اس لیے یہ بیرونی لوگ ہیں، ان کی شُدّھی کی جائے۔ افغانستان اور پہاڑی علاقے پہلے بھارت کے حصے تھے، جو آج اسلام کے زیرِ اثر ہیں۔ اس لیے افغانستان اور آس پاس کے پہاڑی علاقوں میں بھی ہندو راج ہونا چاہئے، جیسا نیپال میں ہے۔ اس کے بغیر سوراج کی بات فضول ہے۔"[xv]
ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے اور یہاں سے مسلمانوں اور عیسائیوں کو باہر نکال دینے کے تمام طریقے 1923 کے شروع میں وِنايك دامودر ساورکر نے اپنی متنازعہ کتاب ہندوتو میں زیادہ تفصیل سے پیش کیے۔ ہندوؤں اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان نفرت اور انہیں منقسم کرنے والی اس کتاب کو لکھنے کی اجازت حیران کن طور پر انہیں انگریزوں کی قید میں رہتے دے دی گئی۔ ان کے ذریعے پیش کی گئی ہندو راشٹر کی تعریف میں، مسلمان و عیسائی شامل نہیں تھے، کیونکہ وہ ہندو ثقافتی وِرثے سے جُڑتے نہیں تھے، نہ ہی ہندو مذہب اختیار کرتے تھے۔ انہوں نے لکھا:
"عیسائی اور محمڈن، جو کچھ وقت پہلے تک ہندو ہی تھے اور زیادہ تر معاملات میں ان کی پہلی نسل اس نئے ماحول میں رچنے بسنے کی خواہش مند تھی۔ ان کے بدن میں ہندو لہو ہے لیکن انہوں نے ایک نئی تہذیب اپنائی ہے، اس کی وجہ سے یہ ہندو نہیں کہے جا سکتے ہیں۔ نیا مذہب اختیار کرنے کے بعد، انہوں نے ہندو تہذیب و ثقافت کو مکمل طور پر ترک کر دیا ہے، وہ سوچتے ہیں کہ اب وہ ہندو تہذیب سے الگ ہو گئے ہیں۔ اُن کے تہوار اور میلے (عرس وغیرہ)  الگ ہیں اور ان کے ہیرو بھی مختلف ہیں۔ ان کے اصول اور زندگی کو دیکھنے کا ان کا نظریہ بدل گیا ہے۔ وہ اب ہم سے میل نہیں کھاتے لہذا انہیں ہندو نہیں کہا جا سکتا۔"[xvi]
ہندُتووادی سیاست کی داغ بیل ڈالنے والے ساورکر نے بعد میں دو قومی نظریے کو تفصیل سے بیان کیا۔ اس حقیقت کو بھولنا نہیں چاہیے کہ مسلم لیگ نے تو پاکستان کی قرارداد 1940 میں منظور کی تھی، لیکن آر ایس ایس کے عظیم مفکر اور رہنما ساورکر نے اس سے بہت پہلے دو قومی نظریہ پیش کر دیا تھا۔ 1937 میں احمد آباد میں ہندو مہاسبھا کے 19ویں سالانہ اجلاس کے صدارتی خطبے میں انہوں نے واضح طور پر یہی  بات دوہرائی کہ،
"حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں دو باہم مخالف قومیں ساتھ ساتھ رہتی ہیں۔ بہت سے ناپُختہ سوچ کے مالک سیاستداں یہ ماننے میں زبردست غلطی کرتے ہیں کہ دو کمیونٹی جو ایک دوسرے کی مخالف ہیں اور دونوں میں عداوت ہے، وہ مل کر رہ سکتی ہیں اور ایک دوسرے سے جُڑ سکتی ہیں۔ ہمارے اِن بھلے مانس لیکن فکر سے مُبرّا دوستوں کو اپنے اِن خوابوں کا سامنا حقائق سے کرانا چاہیے۔ کیونکہ وہ فرقہ پرستی سے جُڑی الجھنوں کے تئیں جلدبازی میں ہیں اور انہیں فرقہ پرست تنظیموں سے جوڑ دیتے ہیں۔ تاہم، حقیقت یہ ہے کہ یہ نام نہاد فرقہ پرستانہ سوال ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان صدیوں سے چلی آ رہی ثقافتی، مذہبی اور قومی منافرت کا نتیجہ ہے۔ وہ وقت گزر گیا، جب آپ اس منافرت کو ختم کر سکتے تھے۔ ساتھ ہی آپ ان سے نظریں چرا کر انہیں دبا نہیں سکتے۔ بہتر یہ ہوگا کہ آپ انہیں سمجھیں اور نظر انداز کرنے کے بجائے گہرائی سے ان کا علاج کریں۔ ہمیں کھلے من سے اِن تلخ حقائق کو قبول کرلینا چاہئے، جیسے کہ وہ ہیں۔ موجودہ صورتحال میں، یہ اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت ایک مستحکم اور ہمہ مذہبی ملک ہوسکتا ہے۔ اس کے برعکس بھارت میں دو راشٹر ہیں، ایک ہندو اور ایک مسلمان۔"[xvii]
ساورکر کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے آر ایس ایس نے یہ خیال مسترد کر دیا کہ ہندو اور مسلمان مل کر ایک قوم کی تعمیر کر سکتے ہیں۔ یوم آزادی (14 اگست 1947) کی شام کو آر ایس ایس کے انگریزی ترجمان اخبار 'آرگنائزر' کے اداریہ میں راشٹر کے ان کے تصور کو اِن الفاظ میں پیش کیا گيا:
"اب ہمیں خود کو قوم پرستی کے مفروضہ تصورات سے متاثر ہونے سے بچنا چاہئے۔ بہت سارے ذہنی انتشار کے ساتھ موجودہ اور مستقبل کی پریشانیوں کو دور کیا جا سکتا ہے، اس آسان حقیقت کو قبول کر کے کہ ہندوستھان میں صرف ہندو ہی قوم کی تعمیر کرتے ہیں اور ملک کا ڈھانچہ اُسی محفوظ اور مضبوط بنیاد پر کھڑا کیا جانا چاہیے... راشٹر کی تعمیر ہندوؤں کے ذریعے، ہندو روایات، ثقافت و تفکرات اور خواہشات کی بنیاد پر کی جانا چاہئے۔"
آزادی سے پہلے کے ہندوستان کی فرقہ وارانہ سیاست کے ماہر، محقق و مفکر ڈاکٹر بی آر امبیڈکر دو قومی نظریے کے بارے میں ہندو مہاسبھا اور مسلم لیگ کے یکساں خیالات اور آپسی سمجھ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"یہ بات بھلے عجیب لگے لیکن ایک راشٹر بنام دو راشٹر کے سوال پر مسٹر ساورکر اور مسٹر جناح کے خیالات متضاد ہونے کے بجائے ایک دوسرے کے ساتھ مکمل ہم آہنگ نظر آتے ہیں۔ دونوں ہی اسے قبول کرتے ہیں، نہ صرف قبول کرتے ہیں بلکہ اس پر اصرار کرتے ہیں کہ بھارت میں دو راشٹر ہیں، ایک مسلم راشٹر اور دوسرا ہندو راشٹر۔"[xviii]
ساورکر کے شاطرانہ دو قومی نظریے اور ہندوتو کی تفسیر سے امبیڈکر میں بہت چھٹپٹاہٹ تھی۔ انہوں نے 1940 کے آغاز میں لکھا کہ،
"اس طرح کی تشریح سے تو ہندو قوم غلبہ جما کر ہی رہے گی اور مسلم قوم کو ان کے ماتحت رہ کر تعاون کرنا ہوگا۔"[xix]
ساورکر کی قیادت میں ہندو مہاسبھا کا مسلم لیگ کے ساتھ مل کر سرکار بنانا
 ہندو قوم پرست ساورکر کی اولادیں، آج جو بھارت میں اقتدار سنبھالے ہوئی ہیں، اِس حیرت انگیز حقیقت سے بے خبر ہیں کہ ملک کی ساجھا جنگِ آزادی خاص طور سے انگریز حکمرانوں کے خلاف 1942 کی انگریزوں بھارت چھوڑو تحریک کو غیر مؤثر بنانے کے لئے ساورکر کی قیادت والی ہندو مہاسبھا نے مسلم لیگ کو ساتھ لے کر سرکار بنائی تھی۔ کانپور میں منعقد ہندو مہا سبھا کے 24ویں اجلاس میں صدارتی خطبہ دیتے ہوئے ساورکر نے مسلم لیگ کو ساتھ لینے کا یوں بچاؤ كيا:
"ہندو مہاسبھا جانتی ہے کہ عملی سیاست میں ہمیں عقلی معاہدوں کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔ حال ہی سندھ کی حقیقت کو سمجھیں، جہاں دعوت ملنے پر سندھ ہندو مہاسبھا نے مسلم لیگ کے ساتھ مل کر مشترکہ حکومت چلانے کی ذمہ داری لی۔ بنگال کی مثال بھی سب کے سامنے ہے۔ سرکش (مسلم) ليگی جنہیں کانگریس اپنی تمام تر خود سپردگی کے باوجود خوش نہیں رکھ سکی، ہندو مہا سبھا کے رابطے میں آنے کے بعد عقلی معاہدوں اور باہمی سماجی مبادلے کو تیار ہو گئے۔ مسٹر فضل الحق کی پریمیرشپ (وزیراعلا) اورمہاسبھا کے مشّاق و معزز لیڈر ڈاکٹر شياماپرساد مکھرجی کی قیادت میں دونوں فرقوں کے مفادات پورے کرتے ہوئے ایک سال تک کامیابی کے ساتھ چلی۔ اس کے علاوہ ہمارے کام کاج سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ ہندو مہاسبھا نے سیاسی اقتدار صرف عوامی مفاد کی خاطر حاصل کیا تھا، نہ کہ اقتدار کے عیش لوٹنے اور فائدے بٹورنے کے لئے۔"[xx]
ہندو مہاسبھا اور مسلم لیگ نے شمال مغربی سرحدی صوبے میں بھی مخلوط حکومت بنائی تھی۔
تقسیم مخالف مسلمان
ہندوستان کی تقسیم کے بارے میں ہندُتوا بریگیڈ کے ذریعے جو سب سے بڑا جھوٹ مسلسل پھیلایا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ تمام مسلمانوں نے متفقہ رائے سے پاکستان کا مطالبہ کیا اور ملک کا بٹوارہ کرا دیا۔ ہندُتووادیوں کے اس جھوٹ کو سچ مان لیا جانا ہندوستان میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کی ایک بڑی وجہ ہے۔ یہ سچ ہے کہ 1947 میں ہوئی ملک کی تقسیم کی وجہ مسلم لیگ کا مسلمانوں کے لئے علاحدہ ملک کا مطالبہ تھا، اور اس سچ سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اپنی مانگ کی حمایت میں مسلم لیگ کے پاس مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو متاثر کرنے کی قوت تھی۔ اسی کے ساتھ یہ بھی سچ ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں اور مسلم تنظیموں کا ایک بڑا حصہ پاکستان کے اس مطالبے کے خلاف ڈٹ کر کھڑا تھا۔ تقسیم مخالف ان مسلمانوں نے مسلم لیگ کے دعوے کو اصولی طور پر چیلنج کیا اور بعد میں پاکستان کی مانگ کے خلاف سڑکوں پر زبردست جدوجہد کی۔ یہ مسلم بہادری سے لڑے اور ان میں سے بہتوں نے مادرِہند کے اتحاد اور سالمیت کے لئے اپنی جانیں تک قربان کر دیں۔ اس کے باوجود ملک کو تقسیم کرانے کے لئے تمام مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرائے جانے والا جھوٹ مسلسل بولا جاتا رہا۔ نہ صرف ہندُتوواديوں کی مسلم مخالف سیاست کے لئے بلکہ اس لئے بھی کہ بھارتیہ مسلم اپنے بزرگوں کی ان بے مثال قربانیوں سے ناواقف تھے، جو انہوں نے مسلم لیگ کا سامنا کرتے ہوئے سیاسی، مذہبی اور جسمانی طور پر دی تھیں۔
مسلم لیگ کی جانب سے لاہور میں پاکستان کی تجویز منظور کر لئے جانے کے کچھ ہفتے میں ہی ہندوستانی مسلمانوں نے دہلی (کویںس پارک، چاندنی چوک) میں 27 تا 30 اپریل 1940 کو مسلم آزاد کانفرنس کا ایک بےمثال جلسہ کر ڈالا۔ (پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق 29 اپریل 1940 کو اس کا اختتام ہونا تھا مگر کانفرنس میں شامل ہونے والوں کا جوش و خروش اور کام کا دباؤ دیکھتے ہوئے اسے ایک دن اور بڑھا دیا گیا تھا۔) ہندوستان کے تقریباً ہر حصے سے کوئی 1400 نمائندوں نے اس میں شرکت کی۔ کانفرنس کی توجہ کا خاص مرکز سندھ کے سابق پریمیئر (مُکھیہ منتری یعنی وزیرِ اعلا کے مساوی عہدہ) اللہ بخش تھے، جنہوں نے کانفرنس کی صدارت بھی کی۔ وطن کی ایکتا کے لئے قربان ہونے والوں میں اللہ بخش بھی تھے۔
بہت سی بڑی و موقر مسلم تنظیموں نے اس کانفرنس میں شرکت کی۔ ان میں آل انڈیا جميعت العلماء، آل انڈیا مومن کانفرنس، آل انڈیا مجلس احرار، آل انڈیا شیعہ پاليٹكل کانفرنس، خدائی خدمتگار، بنگال کرشک پرجا پارٹی، آل انڈیا مسلم پارلیمینٹری بورڈ، دی انجمنِ وطن بلوچستان، آل انڈیا مسلم مجلس اور جمیعت اہلِ حدیث وغیرہ شامل تھیں۔ آزاد مسلم کانفرنس میں متحدہ صوبہ، بہار، وسطی صوبہ، پنجاب، سندھ، شمال مغربی سرحدی صوبہ، مدراس، اڑیسہ، بنگال، ملبار، بلوچستان، دہلی، آسام، راجستھان، کشمیر، حیدرآباد کے علاوہ کئی دیسی ریاستوں کے نمائندوں نے شرکت کی، جس سے یہ پورے ملک کے مسلمانوں کی کانفرنس ہو گئی تھی۔[xxi] اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ یہ نمائندے "بھارت کے مسلمانوں کی اکثریت" کی نمائندگی کررہے تھے۔[xxii]
ان باوقار مسلم تنظیموں کے علاوہ بھارتیہ مسلم دانشوروں کی کہکشاں جیسے ڈاکٹر مختار احمد انصاری (جنہوں نے مسلم لیگ کی فرقہ وارانہ سیاست کے خلاف محاذ کھول رکھا تھا، وفات 1936)، شوكت الله انصاری، خان عبدالغفار خان، سید عبداللہ بریلوی، شیخ محمد عبداللہ، اے ایم خواجہ اور مولانا آزاد پاکستان کے خلاف اس تحریک کے ساتھ تھے۔ جمعیت اور دیگر تنظیموں نے دو قومی نظریے کے خلاف اور ہندوستان میں ہندوؤں و مسلمانوں کی مشترکہ وراثت پر مبنی ادب اردو میں بڑے پیمانے پر شائع کیا تھا۔
اپنے صدارتی خطبے میں اللہ بخش نے یہ اعلان کیا کہ پاکستان کی تجویز مسلمانوں کے ساتھ بھارت کے لئے بھی خودکُش ثابت ہو گی۔ بھارتیہ سماج و طرزِحکومت کی سب کو جذب کر لینے والی فطری خوبی کو نمایاں کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ:
"ایک ہندوستانی شہری ہونے کے ناطے مسلمان، ہندو اور دیگر ہندوستانیوں کا اپنے وطن اور اس کی تمام چیزوں پر، اس کے ثقافتی ورثے پر برابری کا حق ہے اور انہیں اس پر فخر ہونا چاہئے۔ ادب کو ہی دیکھیں تو اسے سب نے مل جل کر فروغ دیا ہے۔ جیسے مسلم تخلیق کاروں کی تخلیق کردہ ہیر رانجھا اور سسی پنوں کی کہانیاں ہندوؤں اور سکھوں نے پنجاب اور سندھ میں دور دور تک پھیلا دیں۔ اس طرح کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ یہ ہندو، مسلمان یا ہندوستان کے دیگر باشندوں کے درمیان غیر اخلاقی غلط فہمی ہے کہ ان کا پورے ہندوستان یا اس کے کسی حصہ پر خصوصی ملکیتی حق ہے۔ ملک غیر منقسم طور پر اُن سب کا ہے، جو اس میں رہتے بستے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح یہ ہندوستانی مسلمانوں کی وراثت کا بھی ناگزیر حصہ ہے۔ کوئی الگ یا خصوصی علاقہ نہیں، بلکہ پورا بھارت ہندوستانی مسلمانوں کا وطن ہے۔ کسی بھی ہندو یا مسلمان کو اس کا حق نہیں ہے کہ وہ اس مادرِ وطن کی ایک انچ زمین سے بھی انہیں الگ کر سکے۔"[xxiii]
مسلم لیگ نے کرایا اللہ بخش کا قتل
ہم میں سے کتنے لوگ جانتے ہیں کہ ہندو راشٹروادیوں کے ذریعے مہاتما گاندھی کو قتل کئے جانے سے بہت پہلے مسلم راشٹروادیوں (مسلم لیگ کے رہنما) نے کِرائے کے قاتلوں کی مدد سے اللہ بخش کا قتل کرا دیا تھا۔ 14 مئی 1943 کو سندھ کے شکارپور قصبے میں یہ قتل کیا گیا، کیونکہ اللہ بخش مسلم لیگ اور اس کے ذریعے کی جا رہی پاکستان کی مانگ کے خلاف ہندو مسلم اتحاد کی علامت طور پر کھڑے ہو گئے تھے۔ اللہ بخش کو بھی گاندھی کی طرح ہی دیکھا جانا چاہئے، جو بھارت کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کی خواہش رکھنے والے ہندُتوواديوں کے سامنے چٹان بن کر اڑ گئے تھے۔
مسلم لیگ کی دہشت گردی
پاکستان مخالف تحریک کے تمام رہنماؤں کو مسلم لیگ کے حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے گھر لوٹے گئے، اہلِ خانہ پر حملے کئے گئے، جن مساجد جن میں یہ رہنما قیام کرتے یا مسلمانوں سے خطاب کرتے، انہیں نقصان پہنچایا گیا۔ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی پر اتر پردیش اور بہار میں شدید حملے کیے گئے۔ مولانا آزاد، احرار لیڈر حبیب الرحمان، مولانا اسحاق سنبھلی، حافظ ابراہیم، مولانا ایم قاسم شاہجہانپوری اور دیگر کئی اہم علماء کو جان لیوا حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ کئی جگہ ان علماء کو تیز ہتھیاروں کا نشانہ بنایا گیا تھا، جس کے باعث ان کے اعضاء بیکار ہو گئے یا کاٹنے پڑے۔ ان پر گولیاں چلائی گئیں اور دہلی میں واقع جمیعت العلماء ہند کے دفتر میں آگ لگا دی گئی۔ مومن کانفرنس کے جلسے ان حملوں کا خاص نشانہ ہوا کرتے تھے۔ اس کے کارکنوں کو قتل کیا گیا، جس پر کانفرنس نے مسلم لیگ کو خبردار کیا تھا۔
ایک ہم عصر دستاویز کے مطابق،
"اس بات کا ذکر کافی درد کے ساتھ کرنا پڑ رہا ہے کہ معزز محب وطن علماء اور رہنماؤں کے ساتھ مسلم لیگ نے کس طرح کا برتاؤ کیا۔ یہ دردناک، افسوسناک اور غیر انسانی تھا۔ گاؤں، شہروں اور قصبوں میں ان محب وطن شخصیتوں کے جلسوں پر پتھراو کیے گئے اور بے حد مجرمانہ ڈھنگ سے بار بار حملے کیے گئے۔ مسلم لیگ کا حفاظتی دستہ ایم این جی اب محب وطن مسلمانوں کے خلاف ایسے تشدد پر اتر آیا تھا، جسے بیان نہیں کیا جا سکتا۔ محب وطن مسلمانوں کا کہیں بھی سفر کرنا مشکل تھا کیونکہ آمدورفت کے دوران ان پر حملے کیے جا رہے تھے۔ لیگ کی مخالفت کرنے والے اب خوفزدہ ہونے لگے تھے اور اگر کوئی بھی مزاحمت کرنے کی ہمت دکھاتا تو اس کا حشر بہت برا ہوتا۔"[xxiv]
دو قومی نظریے کے پیروکار ہندو قوم پرست، جنہیں ہندوستانی قوم پرست بنادیا گیا
ان تمام حقائق کے باوجود، صرف مسلمانوں کو تقسیم کا گناہگار قرار دے دیا گیا۔ انہیں ہی دو قومی نظریے کو جنم دینے کا مجرم مان لیا گیا۔ بال گنگا دھر تلک، لاجپت رائے، مدن موہن مالویہ، ایم ایس اینی، بی ایس مُنجے، ایم آر جيكر، این سی كیلكر، سوامی شردھانند وغیرہ (جن میں سے کئی تو کانگریس لیڈر تھے) جیسے اہم ہندو قوم پرست رہنما ایک وسیع بھارت کو قبول نہیں کرتے، بلکہ وہ ایک مخصوص ہندو راشٹر بنانے کا عزم رکھتے تھے۔ ان کا یقین تھا کہ بھارت دورِ قدیم سے ایک ہندو راشٹر تھا اور اسے اسی سمت میں آگے بڑھنا چاہئے۔ کہنا نہ ہوگا کہ وہ مانو عظیم بھارتیہ "راشٹروادی" نیتا ہو گئے۔
دراصل ملک کے اکثریتی طبقے کو اپنی فرقہ پرستی راشٹرواد کے پردے میں چھپانے کی سہولیت حاصل تھی۔ اس کی زندہ مثال مدن موہن مالویہ ہیں۔ 1909، 1918 اور
 1 933 میں وہ اُس بھارتیہ نیشنل کانگریس کے صدر رہے، جو ایک متحدہ بھارت کے لئے پُختہ عزم رکھتی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے 1923، 1924 اور 1936 میں ہندو مہاسبھا کے اجلاس کی صدارت کی۔ 'ہندی، ہندو، ہندوستان' جیسے منقسم کرنے والے نعرے کو جنم دینے والے وہی تھے۔[xxv] فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے کی ان کی کرتوتوں کے باوجود انہیں عظیم بھارتیہ قوم پرست نیتا مانا جاتا ہے۔
اگر مسلم رہنماؤں میں اس بنیاد پر امتیاز کیا جا سکتا ہے کہ وہ مختلف مذاہب کی سرزمین والے بھارت میں یقین رکھتے ہیں یا مسلمانوں کے وطن کے طور پر پاکستان کی تعمیر میں، تو ہندو رہنماؤں کے لئے بھی یہی معیار ہونا چاہئے۔ جب ہم ہندوستانی قوم پرستی یا بھارتیہ راشٹرواد کا مطالعہ کرتے ہیں تو عام طور پر ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ سارے ہندو راشٹر بھکت تھے، جبکہ بہت تھوڑے مسلمان دیش بھکت تھے۔ زیادہ تر مسلم ملک دشمن مسلم لیگ کے ساتھ تھے۔ اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے، ہمیں ہندوستان کے حوالے سے یہ طے کرنے کی ضرورت ہے کہ قومیت (راشٹرواد) کا مفہوم کیا ہے۔ اگر ہندوستانی قوم پرستی سے یہ معنی لئے جا رہے تھے کہ یہ ایک کثیرالمذاہب، سیکولر ملک کی تعمیر کے لئے تھی اور صرف وہ جو اس عزم کو پورا کرنے میں یقین رکھتے تھے، وہی قوم پرست یا محب وطن (راشٹروادی یا سیش بھکت) کہے جائیں گے، لیکن اس طرح کی بات تب نہیں ہوتی، جب ہم فرقہ پرست ہندو یا قوم پرست ہندو نیتاؤں کے بارے میں بات کریں۔ حالانکہ وہ کثیر ثقافتی بھارت کے خلاف تھے، اس کے باوجود وہ قوم پرستی کی علامت بنے ہوئے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندو راشٹروادی نیتا اختیاری طور پر غدار یا قوم مخالف (راشٹر وِرودھی) تھے، ٹھیک ویسے ہی جیسے مسلم لیگ اور اس کے رہنما تھے۔
ٹھیک اسی طرح جیسے سارے ہندو نیتا محب وطن نہیں تھے، اُسی طرح تمام مسلمان بھی ملک و قوم مخالف نہیں تھے، غدار نہیں تھے۔ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اور بڑی مسلم تنظیموں نے دو قومی نظریے اور پاکستان بنائے جانے کی بھرپور مخالفت کی، یہاں تک کہ اس کے لئے انہوں نے اپنی جانیں بھی قربان کیں۔
اس کا سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ ہندو قوم پرستوں کی اولادیں، جنہوں نے دو قومی نظریے کی سیاست کو وراثت میں پایا، آج ملک کے اقتدار پر قابض ہیں۔ ان اقتدار پرست اولادوں کے اب و جد جیسے مُنجے، ساورکر اور گولولکر کی جدوجہدِ آزادی میں کوئی حصے داری نہیں ہے۔ وہ مسلم لیگ اور انگریز حکمرانوں کے مددگار رہے اور آج ان کی اولادیں ہندوستانی مسلمانوں کے حب الوطنی پر سوال اچھال رہی ہیں۔
ہندوستانی مسلمانوں کو یہ کرنا ہے
ملک دشمن ہندو دیش بھکتوں کی طرف سے کیے جا رہے حملوں کے خلاف بھارتیہ مسلمانوں کو دفاعی رخ اپنانے کے بجائے، ان پر لگائے جا رہے الزامات کا جارحانہ طور پر جواب دیا جانا چاہئے۔ تاریخ مسلمانوں کے ساتھ ہے۔ ہندوستانی مسلمان اُن نِڈر مسلمانوں کے اولادیں ہیں، جنہوں نے مسلم لیگ اور پاکستان کے مطالبے کے خلاف شاندار جنگ لڑی ہے۔ انہیں پاکستان نہیں چاہئے تھا، بلکہ وہ انگریز حکمرانوں، مسلم لیگ اور کانگریس کے درمیان بھارت کی تقسیم کے لئے کیے گئے معاہدے کے بے بس شکار تھے۔ ملک کی تقسیم کے لئے کانگریس کے تیار ہو جانے پر سرحدی گاندھی خان عبدالغفار خان نے موہن داس کرمچند گاندھی کو مخاطب کرتے جون 1947 میں جن الفاظ کا استعمال کیا، وہ پاکستان مخالف مسلمانوں کی تلخی کو عیاں کرتے ہیں۔ انہوں نے لکھا:
"ہم پختون آپ کے ساتھ کھڑے رہے اور آزادی کے لئے بڑی سے بڑی قربانیاں دیں، لیکن آپ نے اب ہمیں بھیڑیوں کے بیچ اکیلا چھوڑ دیا۔"[xxvi]
ساورکر اور گولولکر کے اولادیں، جن کی آج ہندوستان پر حکمرانی چل رہی ہے، ان کی میراث میں دو قومی نظریہ اور جناح کے ساتھ کھڑے ہونا شامل ہے، جبکہ مذہب کی بنیاد پر ملک کی تقسیم کے مخالف مسلمانوں کے پاس ہندوستان کو منقسم ہونے سے بچانے کی کوششوں کی ایک مضبوط بنیاد ہے۔ ایک متحد، جمہوری اور سیکولر بھارت کے لیے ان کا عزم اور استقلال روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ مشہور شاعر شمیم کرہانی کی پاکستان مخالف نظم 'پاکستان چاہنے والوں سے'، جو مسلم لیگ کے خلاف ہندوستانی مسلمانوں کا عوامی نغمہ بن گئی تھی، وہ اس عزم و استقلال کو مکمل طور پر پیش کرتی ہے۔ جب مسلم لیگ نے پاکستان کی اپنی مانگ کو مذہب سے جوڑا، تب بھی شمیم کرہانی نے اِسی لب و لہجے میں اُس کا جواب دیا تھا۔ ہر ہندوستانی مسلمان کو اس پر فخر ہونا چاہیے۔


پاکستان چاہنے والوں سے[xxvii]
- شمیم کرہانی
ہم کو بتلاؤ تو کیا مطلب ہے پاکستان کا
جس جگہ اِس وقت مسلم ہیں، نجس ہے کیا وہ جا

نیشِ تہمت سے تیرے، چشتی کا سینہ چاک ہے
جلد بتلا کیا زمیں اجمیر کی ناپاک ہے

کفر کی وادی میں ایماں کا نگینہ کھو گیا
ہے کیا خاکِ نجس میں شاہِ مینا کھو گیا

دین کا مخدوم جو کلیر کی آبادی میں ہے
آہ! اس کا آستانہ کیا نجس وادی میں ہے

ہیں اماموں کے جو روضے لکھنؤ کی خاک پر
بن گئے کیا توبہ توبہ خطہء ناپاک پر

بات یہ کیسی کہی تو نے کہ دل نے آہ کی
کیا زمیں طاہر نہیں درگاہ نوراللہ کی

آہ! اس پاکیزہ گنگا کو نجس کہتا ہے تو
جس کے پانی سے کیا مسلم شہیدوں نے وضو

نامِ پاکستاں نہ لے گر تجھ کو پاسِ دین ہے
یہ گزشتہ نسلِ مسلم کی بڑی توہین ہے

ٹکڑے ٹکڑے کر نہیں سکتے وطن کو اہلِ دل
کس طرح تاراج دیکھیں گے چمن کو اہلِ دل

کیا یہ مطلب ہے کہ ہم محرومِ آزادی رہیں
منقسم ہو کر عرب کی طرح فریادی رہیں

ٹکڑے ٹکڑے ہو کہ مسلم خستہ دل ہو جائے گا
نخلِ جمیعت سراسر مضمحل ہو جائے گا
------------------------------------------
Shamsul Islam
For some of S. Islam's writings in English, Hindi, Marathi, Malayalam, Kannada, Bengali, Punjabi, Urdu & Gujarati see the following link:
Facebook: shams shamsul
Twitter: @shamsforjustice 
Translated from English: Jawed Alam, Indore



[i] The Times Of India, Delhi, edit, 'Sangh's triplespeak', August 16. 2002.
[ii] Dr. Rajendra Prasad to Sardar Patel (March 14, 1948) cited in Neerja Singh (ed.), Nehru-Patel: Agreement Within Difference—Select Documents & Correspondences 1933-1950, NBT, Delhi, p. 43.

[iii] http://indianexpress.com/article/india/violence-in-amu-hamid-ansari-says-timing-of-protest-raises-question-5174587/

[iv] Cited in, The Trial of Bhagat Singh — Politics of Justice by A.G. Noorani.
[v] Cited in Majumdar, R. C., History of the Freedom Movement in India, Vol. I (Calcutta: Firma KL Mukhpadhyay, 1971), 295–296.

[vi] Cited in Majumdar, R. C., Three Phases of India’s Struggle for Freedom (Bombay: Bharatiya Vidya Bhavan, 1961), 8.

[vii] Ibid.
[viii] Ibid.
[ix] Parmanand, Bhai in pamphlet titled, ‘The Hindu National Movement’, cited in B.R. Ambedkar, Pakistan or the Partition of India (Bombay: Government of Maharashtra, 1990), 35–36, first Published December 1940, Thackers Publishers, Bombay.

[x] Noorani, A. G., ‘Parivar & Partition’, Frontline, Chennai, August 22, 2014, p. 52.

[xi] Ibid., 53.

[xii] Rai, Lala Lajpat, ‘Hindu-Muslim Problem XI’, The Tribune, Lahore, December 14, 1924, p. 8.

[xiii] Cited in A. G. Noorani, ‘Parivar & Partition’, Frontline, Chennai, August 22, 1914, p. 54.
[xiv] Cited in Dhanki, J. S., Lala Lajpat Rai and Indian Nationalism, S Publications, Jullundur, 1990, p. 378.
[xv] Cited in Ambedkar, B. R., Pakistan or the Partition of India, Maharashtra Government, Bombay, 1990, p. 129.
[xvi] Maratha [V. D. Savarkar], Hindutva, VV Kelkar, Nagpur, 1923, p. 88.
[xvii] Samagar Savarkar Wangmaya (Collected Works of Savarkar), Hindu Mahasabha,  Poona, 1963, p.296.
[xviii] B. R. Ambedkar, Pakistan or the Partition of India, Govt. of Maharashtra, Bombay, 1990 [Reprint of 1940 edition], p. 142.
[xix] Ibid., 143.
[xx] Samagar Savarkar Wangmaya (Collected Works of Savarkar), Hindu Mahasabha,  Poona, 1963, pp. 479-480.
[xxi] According to records available with the reception committee of the Conference the number of delegates from major Provinces was as follows: United Provinces 357, Punjab 155, Bihar 125, Bengal 105, N.W.F. Province 35, Sind 82, Baluchistan 45, Bombay 60, C. P. 12, Madras 5, Orissa 5, Ajmer-Mewar 12, Assam 25, Delhi 112, Indian States 12. The Hindustan Times, April 28, 1940. 
[xxii] Smith, Wilfred Cantwell, Modern Islam in India: A Social Analysis, Victor G. Ltd, London, 1946, 231.
[xxiii] The Hindustan Times, April 28, 1940.
[xxiv] Cited in Adardi, Aseer, Tehreek-e-Azadi aur Musalman, Darul Maualefeen, Deoband, 2000 (6th edition), p. 341.
[xxv] Gangadharan, K. K., Indian National Consciousness: Growth & Development, Kalamkar, Delhi,1972, p. 97.
[xxvi] Khan, Abdul Ghaffar Khan, Words of Freedom: Ideas of a Nation, Penguin, Delhi, 2010, pp. 41-42.
[xxvii] ‘Pakistan chahne walon se’ by Shamin Karhani in Akhtar, Jaan Nisar (ed.), Hinostan Hamara 2, Hindustani Book Trust, Mumbai, 1973, pp. 305-306.
The author of this piece is proud of the fact that he was student of this great patriotic Urdu poet at Anglo Arabic School, Delhi, during 1963-66.


No comments:

Post a Comment